Warning: Creating default object from empty value in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/admin/redux-framework/inc/class.redux_filesystem.php on line 29

Warning: "continue" targeting switch is equivalent to "break". Did you mean to use "continue 2"? in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/admin/redux-framework/inc/extensions/customizer/extension_customizer.php on line 376

Warning: "continue" targeting switch is equivalent to "break". Did you mean to use "continue 2"? in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/admin/redux-framework/inc/extensions/customizer/extension_customizer.php on line 398

Warning: "continue" targeting switch is equivalent to "break". Did you mean to use "continue 2"? in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/admin/redux-framework/inc/extensions/customizer/extension_customizer.php on line 416

Warning: "continue" targeting switch is equivalent to "break". Did you mean to use "continue 2"? in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/admin/redux-framework/inc/extensions/customizer/extension_customizer.php on line 420

Warning: "continue" targeting switch is equivalent to "break". Did you mean to use "continue 2"? in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/admin/redux-framework/inc/extensions/customizer/extension_customizer.php on line 447

Warning: "continue" targeting switch is equivalent to "break". Did you mean to use "continue 2"? in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/admin/redux-framework/inc/extensions/customizer/extension_customizer.php on line 459

Warning: "continue" targeting switch is equivalent to "break". Did you mean to use "continue 2"? in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/admin/redux-framework/inc/extensions/customizer/extension_customizer.php on line 478

Warning: Cannot modify header information - headers already sent by (output started at /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/admin/redux-framework/inc/class.redux_filesystem.php:29) in /home/inqilabn/public_html/wp-includes/feed-rss2.php on line 8
بلاگرز – انقلاب https://intv.pk WebTV News Channel Sun, 19 Mar 2023 15:09:43 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.5.5 کراچی میں نئی تاریخ رقم کرنے والے بابائے کراچی https://intv.pk/?p=34287 https://intv.pk/?p=34287#respond Sun, 19 Mar 2023 15:09:43 +0000 http://intv.pk/?p=34287 مزید پڑھیں]]> ڈاکٹر سیف الرحمان ایڈمنسٹریٹر کراچی کو کراچی کے عوام کا سلام کراچی میں نئی تاریخ رقم کرنے والے بابائے کراچی

رضوان احمد فکری

کراچی کے شب و روزور یکسانیت مہنگائی اور کراچی کے مسائل سے بیزار عوام کو مسیحا ملا تو شہر کی رونقیں بحال ہو گئیں۔ ثقافتی سرگرمیوں میں جان ڈالنے والے اٰیڈمنسٹریٹر کراچی نے ثقافتی پروگاموں میں شرکت اور انکی پروموشن کے ساتھ ساتھ عالمی مشاعرے سے شہر کے پرانے امیج کا بحال کیا۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری بھی اس میں انکے شانہ بشانہ تھے۔ مہنگائی اور مسائل کا شکار کراچی کے عوام جنہیں تفریح کے بجائے ٹیکسوں کے بوجھ اور روزانہ کی بنیاد پر بڑھتے مسائل کا سامنا ہے۔ انہیں زہنی سکون اور تفریح اور صلاحیتوں کے اظہار کے موقع فراہم نہیں ہو رہے تھے۔ کراچی کی ترقی کے لئے صفائی، تعمیراتی کام، انسداد تجاوازات مہم، انفرا اسٹرکچر کی بحالی، صرکوں کی تعمیر، پارکوں کی درستگی اور تمام کام تو ڈاکٹر سیف الرحمان سر انجام دے رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے کراچی کے شہریوں کو اس وقت خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا جب انہوں نے تین مارچ سے بارہ مارچ تک چوالیس کھیل منعقد کرانے کے علاوہ روایتی بزرگوں کے کھیل بھی کھیلنے کا موقع دیا۔ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی، لیاری اور ملیر کے علاوہ ہر علاقے کا کھیل فٹ بال، عوامی کھیل کرکٹ، اسکواش، اسنوکر، تمام کھیل منعقد کئے گئے۔ چوالیس سے زائد افسران ان کھیلوں کےء انعقاد کے انچارج تھے۔ جبکہ متعدد کمیٹیوں میں شامل تھے۔ عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ کھیلوں میں پیسہ خرچ کرنے کے بجائے سڑکوں پر خرچ کیا جاتا لیکن یہاں تو ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کمال کردیا کے ایم سی کا ایک روپیہ خرچ کئے بغیر شہر میں رنگ ہی رنگ محبت بکھیر دی۔ اسپانسرز اورپبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر کھلوں میں ساڑھے پانچ ہزار سے زائد کھلاڑیوں کا کھلانے اور انہیں انعامات ٹرافیاں اور میڈلز دے کر کراچی کے عوام کے ہیرو بن گئے۔ ہر جگہ ہر کھیل میں داخلہ مفت تھا۔ نیوی اسکواش کمپلیکس، نیا ناظم آباد اسٹیڈیم، کشمیر روڈ، ککری گراؤنڈ، کراچی کے تمام علاقوں میں دن رات کھیلوں کی سرگرمیاں منعقد ہوئیں۔ انہی دنوں ہندووں کی ہولی آئی تو اسے بھی شامل کیا گیا۔ کھیل تو منعقد ہوئے لیکن ایک محنتی فرض شناس افسر نے ہر جگہ ہر پروگرام میں شرکت کرکے کے ایم سی کا ایک ایسا ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔ جسے شاید ہی کوئی توڑ سکے۔ کھلاڑی اور منتظمین کی ہمت اور حوصلے میں اضافہ انکی اس شرکت سے دگنا ہوگیا۔ انہوں نے پاکستان اور شہر سے محبت کا آغازھی اس طرح کیا کہ تین مارچ کو مزار قائد پر سلامی، مشعل روشن کرنے کے علاوہ تاریخی پریڈ بھی ہوئی۔ قائد اعظم کی روح بھی اتنے محنتی افسر کی کاوشوں ار انکے فرمان پر عمل کرنے پر خوش ہو گئی ہوگی۔
اس اسے قبل وہ کشمیر ڈے بھی بہت شاندار طریقے سے منا چکے تھے۔ مزار قائد سے کشمیر روڈ تک مشعل ریلی بھی نکالی گئی۔ گورنر سندھ نے متعدد پروگراموں میں شرکت کی۔ جبکہ ٓاختتامی پروگرام میں وزیر اعلی سندھ، صوبائی وزیر بلدیات، مختلف پرگراموں میں صوبائی وزیر شہلا رضا، وفاقی وزیر سید امین الحق، خالد مقبول صدیقی، سابق میئر ڈاکٹر فاروق ستار، میونسپل کمشنر سید شجاعت حسین، شکیل احمد، شریف خان،مختلف ڈی ایم سیز افسران، ترکی کے قونصل جنرل، غیر ملکی مندوبین، مختلف اداروں کے ارفاد نے بھی شرکت کی۔ڈاکٹر سیف الرحمان نے کراچی کے عوام میں خوشیاں ہی نہیں بلکہ ایک ایسا راستہ کے ایم سی کے میئرز اور ایڈمنسٹریٹرز کو دکھایا ہے جسے اپنا کر کراچی اور کے ایم سی کا امیج بہتر کیا جا سکتا ہے۔ پچھلے دور میں بھی وہ کاش ایڈمنسٹریٹر ہوتے تو شہر میں اتنے مثبت کام ہوتے کہ ہم لکھ لکھ کر تھک جاتے۔ کے ایم سی کے محکموں کو انہوں نے ہی چارج کیا۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے محکموں کو چارج کرنے کے علاوہ افسران سے وہ کام لیا جو کسی نے نہیں لیا۔ بلدیہ عظمی کراچی کا محکمہ اسپورٹس اب بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ کے ایم سی کے اسپتالوں، میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج یونیورسٹی۔ کے آئی ایچ ڈی کامعیار بلند کیا انہیں عوام کا سہولیات دینے والا ادارہ بنایا۔ کام میں تو انکا کوئی ثانی نہیں۔ لیکن کراچی گیمز میں ایک نئے ڈاکٹر سیف الرحمان سامنے آئے انتہائی مشفق، کھلاڑیوں کے افسران کے ساتھ ساتھ، نہ وقت کی پرواہ نہ تھکن، صرف کام اور کھیلوں میں جگہ جگہ خود شمولیت انکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ کراچی گیمز ملکی پی ایس ایل کی طرح کراچی کا اسپیشل گرینڈ اسپورٹس فیسٹیول بن چکے ہیں۔ کیرم۔ لڈوو، والی بال، سمیت بہت سے گیمزہوئے۔ فرمائش پر [پہل دوج اور

بزرگوں کے زمانے کے روایتی کھیل بھی ہوئے۔ کراچی گیمز کی تشہیر ملک سے باہر بھی ہوئی ہے۔ اسپورٹس مبصرین اور مانیٹرز نے ڈاکٹر سیف الرحمان کو کھلاڑیوں کا مسیحا بھی قرار دیا ہے۔ جبکہ کراچی کے عوام انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ وہ کراچی اور کے ایم سی کا نام روشن کرنے والے ہیرو اور فعال ترین افسر ہیں انکی تعریف کے لئے الفاظ نہیں۔ وہ مذید پروجیکٹس پر بھی کام کر رہے ہیں۔ گورنر سندھ۔ وزیر اعلی سندھ، وزیر بلدیات، وزیر محنت، وزیر ترقی نسواں اور ہر سطح پر انکی تعریف ہورہی ہے انہوں نے کھیلوں کے دنوں میں آٹھ مارچ کو وومن ڈے گیمز بھی منعقد کئے اور خواتیں سے اظہار یکجہتی کیا۔ ہم پھر کہتے ہیں کہ ڈاکٹر سیف الرحمان کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ مثبت اور ترقی و جدت پسند ہیں۔ کے ایم سی کو اسکے افسران کو اور کراچی ہائٹس کو ان پر فخر ہے اور وہ رمضانوں میں بھی ان سے کھیلوں اور دیگر سرگرمیوں کی امید رکھتے ہیں۔

]]>
https://intv.pk/?feed=rss2&p=34287 0
گورنر سندھ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کراچی میں کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں سے دل جیت لئے https://intv.pk/?p=33878 https://intv.pk/?p=33878#respond Sun, 05 Mar 2023 15:51:13 +0000 http://intv.pk/?p=33878 مزید پڑھیں]]> کے ایم سی امیج کی اصل بہتری کا آغاز

گورنر سندھ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کراچی میں کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں سے دل جیت لئے

وزیر اعلی سندھ کی بھی ثقافتی سرگرمیوں میں دلچسپی

کے ایم سی کے ہیروز میں ڈاکٹر سیف الرحمان قابل ذکر۔

پہلی مرتبہ افسران اور کھلاڑیوں کی خصوصی کارکردگی۔۔


خصوصی کالم: رضوان احمد فکری

کراچی بین الاقوامی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ منی پاکستان ہے۔ اس شہر کی ہر شے کی اہمیت ہے وہ سیاست ہو۔ سمندر ہو، مزار قائد اعظم ہو، عجائب گھر ہو، اسکی تاریخی عمارات ہوں یا اسکے ادارے ہوں۔ ان ہی میں سے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن جو پاکستان بننے سے پہلے میونسپل کمیٹی کراچی تھا۔ تاریخی ورثہ اور کراچی کا سب سے اہم ادارہ ہے۔ اس ادارے کی تقسیم در تقسیم نے اسکی ہیئت اور اختیارات کی حالت ضرور بدلی ہے لیکن اسکی اہمیت سے کوئی انکاری نہیں۔ 2001میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ بناتو کراچی کو چار چاند لگ گئے۔ ہر ادارے کی ترقی ہوئی اور کراچی کی مثالیں دنیا بھر میں دی جانے لگیں لیکن اس شہر کو ایسی بری نظر لگی کہ 2010میں ساری ترقی عدم توجہی اور انفرا اسٹرکچر کو برقرار نہ رکھنے نا اہل اور سیاسی زہن رکھنے والے سرکاری ایڈمنسٹریٹرز نے ان اداروں کو تباہ کرکے کراچی کو گریٹر کراچی میگا پولیٹن جیسے اسٹیٹس سے کھنڈرات اور کچرے کا شہر بنا دیا۔ جسکی ذمہ دار حکومتیں اور انکے اتحادی آج بھی اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ 2016سے 2020تک منتخب قیادت بھی کراچی کو نہیں بدل سکی اور اختیارات کا واویلا کرتے ہوئے رخصت ہوگئی۔ مرتضی وہاب کی ایڈمنسٹریٹر تقرری ہونے کے بعد 14ماہ میں ریکارڈ کام ہوئے۔ سرکاری ایڈمنسٹریٹرز میں بریگیڈیئر عبدالحق نے بہت کام کیا اور کے ایم سی کو آکٹرائے چھن جانے کے باوجود مستحکم کیا۔سیاسی ایدمنسٹریٹرز میں فہیم زمان خان نے تاریخی کام کیا۔ کراچی میں پل پر پل بنانے کا آغاز انہی کے دور میں ہوا کیونکہ وہ شہید وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے بہت قریب تھے اس لئے فنڈز لانا مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن کراچی میں مائی کلاچی بائی پاس، قائد عوام فلائی اوور، اورنگی کاٹیج انڈسٹریز، بلدیہ، لانڈھی کاٹیج انڈسٹریز بھی اسی دور میں ہوئیں۔ فیضی رحمین آرٹ گیلری، کلچر اور سوشل ویلفیئر کے بہت کام ہوئے وومن اسپورٹس کلب اور کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس بھی انہی یادگاروں میں سے ہے۔ اسوقت آرٹس کونسل سادہ اور بہت عام سی تھی۔ احمد شاہ فہیم زمان کی ٹیم کا حصہ بنے تو آرٹس کونسل کو سیف الرحمان گرامی اور احمد شاہ نے نئی شکل دی۔ کے ایم سی سے بہت سے محکمہ چھن جانے کے بعد اور کے ایم سی کے بیڈ امیج بننے کے بعد یہ امید تقریبا ختم ہو چلی تھی کہ کے ایم سی کا کوئی گڈ امیج بنے گا۔ پنشنرز اور ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات اور پنشن کی ادائیگی کے لئے رقوم نہیں تھیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے تو کے ایم سی کے Assetsتک بیچنے کی ہدایت دے دی تھی۔ لیکن ایسی صورتحال میں جبکہ تنخواہیں دو دو ماہ میں ملتی تھیں۔ وزیر اعلی سندھ نے خصوصی گرانٹ چھ ماہ کی جاری کرکے کے ایم سی کو روٹین تنخواہوں کی ادائیگی کرائی۔ مرتضی وہاب کی تقرری کے بعد سے سسٹم بہتر ہوا اور انہوں نے سابق میئر کے دور کی بڑھی ہوئی تنخواہیں جو کے ایم سی ملازمین کو نہیں ملی تھیں ادا کرائیں۔ سات تاریخ تک تنخواہیں مل جاتی ہیں۔ جسکا کے ایم سی میں تصور نہیں تھا۔ مرتضہ وہاب نامساعد حالات میں آئے اور سیسی ایدمنسٹریٹر ہونے کے باوجود تاریخی کام کرکے مثال بن کر رخصت ہوگئے۔ لیکن انکی جگہ جس سرکاری ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر سیف الرحمان کی تقرری ہوئی۔ وہ کے ایم سی کی نبض نبض سے واقف تھے۔ با صلاحیت اور ادارے کے ساتھ ساتھ کراچی کی ان باریکیوں سے بھی واقف ہیں جسکی شہر کو ضرورت تھی۔ انکی ڈائنامک انٹری نے کام چور افسران کی تو ویسے ہی نیند اڑا دی۔ شہر کے لئے دوسرا کام اچھا یہ ہوا کہ اناؤں کے سارے بت توڑ کر گورنر سندھ کے ایم سی اور کراچی کی ترقی کے لئے ان کے ساتھ جڑ گئے۔ پہلے ہی اجلاس میں ڈاکٹر سیف الرحمان نے کارکردگی کا والیوم برھانے والی میٹنگ کی اور شہر کے کونے کونے جاکر دستیاب وسائل اور فنڈز کے درست استعمال کے لئے کام شروع کردیا۔ شہر کے بے ہنگم حالات کو درست کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے مرتضی وہاب اور وزیر اعلی سندھ کی بھی تعریف کی۔ انہیں نہ نیند کی پرواہ تھی نہ وقت کی وہ دن رات علاقوں سے تجاوزات، غیر قانونی تعمیرات، غیر قانونیہ ہائیڈرینٹس، زوو، سفاری پارک، چائنا گراؤنڈ، کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس، سڑکوں فٹ پاتھوں، پارکوں اور شہر کی ضروریات کے مطابق ہر کام میں جتے نظر آئے انکے

شانہ بشانہ گورنر سندھ بھی تھے۔ انکے کاموں کی پزیرائی وزیر بلدیات سندھ بھی اور حکومت سندھ بھی کرتی نظر آئی اور ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کراچی میں اپنے نام کام اور باصلاحیت ہونے سے منفرد حیثیت حاصل کی۔ الہ دین پارک جسکا کوئی پرسان حال نہیں تھا اس میں کام شروع ہوا۔ بند منصوبوں میں ہل جل پیدا ہوئی۔ اسیدوران بلدیاتی انتخابات بھی ہوگئے۔ ڈاکٹر سیف الرحمان نے طبی میدان کے ساتھ ساتھ مثبت سرگرمیوں کے لئے بھی کام شروع کئے۔ اسوقت وہ کراچی میں اسپورٹس کے میدان میں متحرک ہیں کراچی گرینڈ اسپورٹس گیمز جس میں 44سے زائد گیمز ہو رہے ہیں انکا باقاعدہ افتتاح ہوچکا ہے۔ ایک اچھی روایت یہ بھی ڈالی گئی کہ مزار قائد سے حاضری، ریٹ چڑھانے، وہاں سے مشعل روشن کرنے اور خصوصی افسران اور کھلاڑیوں کے ہمراہ،مزار قائد سے اسپورٹس کمپلیکس کشمیر روڈ تک واک بھی منعقد کی گئی۔ مشعل روشن کی گئی جو کھیل شروع ہونے سے اختتام تک روشن رہے گی۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے افتتاح کیا اور شاندار آتشبازی بھی کی گئی۔ ٹمام ٹیموں کا تعارف اور میچوں کا آغاز بھی ہوا۔ کے ایم سی کی تاریخ میں ایسا ایونٹ کبھی نہیں ہوا۔ اس میں شعبہ اسپورٹس کے سینئر ڈائریکٹر سیف عباس حسنی کا بھی شاندار کردار ہے لیکن یہ ایونٹ ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سیف اور گورنر سندھ کی مرہون منت منعقد ہوا۔ حکومت سندھ نے بھی اسکی بھرپور معاونت کی ہے۔ جبکہ اتنے بڑے ایونٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کے ایم سی کے پیسے خرچ نہیں کئے گئے اسپانسرز اور پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر میگا ایونٹ کیا جا رہا ہے۔ بلدیہ عظمی کراچی کے محکموں کے تمام ہیڈ آف ڈپارٹمنٹس کسی نہ کسی کھیل کے انچارج ہیں اور دیگر افسران کی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ بلدیہ کراچی نے شائقین کھیل کو ایسا تحفہ دیا ہے کہ جسکی کوئی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ طالب علم، وقت کا ضیاع کرنے والے نوجوان اور کراچی میں خوف و دہشت کی فضاء سے نکل کر کراچی کا امیج بلڈ کرنے پر ڈاکٹر سیف الرحمان پرائڈ آف پرفارمنس کے حق دار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی بہترین قائدانہ صاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔ 500سے زائد کھلاڑی مختلف گیمز میں حصہ لے رہے ہیں۔ کراچی گیمز سے نئے ٹیلنٹ کا بھی وجود سامنے آئے گا۔ یہ کھلاڑی ملک کا نام روشن کریں گے۔ ہاکی جو ہمارا قومی کھیل ہے اور اس پر پاکستان کی دسترس رہی ہے دوبارہ ٹیلنٹ کے ساتھ زندہ ہورہا ہے۔ کراچی گیمز کا آغاز اولمپکس گیمز کی طرز پر کیا گیا۔ جو بین الاقوامی حیثیت بھی جلد حاصل کرلے گا۔ 3مارچ سے شروع ہونے والا کھیلوں کا یہ میلہ 12مارچ تک جاری رہے گا۔کراچی گیمز میں 5ہزار سے زائد کھلاڑی اور ایتھلیٹکس 44مختلف انڈور اور آؤٹ ڈور گیمز میں حصہ لے رہے ہیں
اس ایونٹ کی پزیرائی کے لئے لیجنڈ کھلاڑی حنیف خان، کرکٹر صادق محمد، شعیب محمد، توصیف احمد، جہانگیر خان، محمد یوسف اسنوکر، ایتھلیٹ نسیم حمید، علی سلمان، ہاشم ہادی، اصلاح الدین، فنکار شو بزنس کی شخصیات، سیاسی سماجی اور کتراچی اور ملک کے لئے گرانقدر خدمات انجام دینے والی شخصیات اس ایونٹ میں شرکت کر رہی ہیں۔ گورنر سندھ بھی اسکا مسلسل حصہ ہیں۔ جس سے کھلاڑیوں اور بلدیہ عظمی کے علاوہ کراچی کے عوام کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ روایتی کھیل، سائیکلنگ، دوڑوں کے مقابلے ہاکی، اسنوکر، رولر اسکیٹنگ، فٹ بال، کرکٹ، وہ کھیل جو بچپن میں کھیلے جاتے تھے۔ ان کی بھی انٹری نے رونق بخش دی ہے۔ میونسپل کمشنر سید شجاعت حسین نے ہفتہ چار فروی کو،مختلف کھیلوں میں شریک کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ڈاکٹر سیف الرحمان کے لئے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ جن کی طرح کام کرتے ہیں۔ ایکٹو ہر ایونٹ میں موجود افسران و کھلاڑیوں کے شانہ بشانہ، کے ایم سی کا نہ صرف امیج بلڈ ہوا ہے بلکہ اتحاد، محبت اور سب کو یکجا کرنے کا بہترین کام بھی ہوگیا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کے ایم سی امیج کی اصل بہتری کا آغازہو گیا ہے۔ گورنر سندھ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کراچی میں کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں سے دل جیت لئے ہیں جبکہ وزیر اعلی سندھ کی بھی ثقافتی سرگرمیوں میں دلچسپی بھی خوش آئند ہے۔ کے ایم سی کے ہیروز میں ڈاکٹر سیف الرحمان قابل ذکرہو چکے ہیں جبکہ پہلی مرتبہ افسران اور کھلاڑیوں کی خصوصی کارکردگی اور انہیں بے پناہ عزت بھی ملی ہے۔

]]>
https://intv.pk/?feed=rss2&p=33878 0
گورنر سندھ کا دورہ کے ایم سی ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی ڈاکٹر سیف الرحمان ڈائنامک ایڈمنسٹریٹر,سیدشجاعت حسین بہترین Combination https://intv.pk/?p=32783 https://intv.pk/?p=32783#respond Thu, 12 Jan 2023 15:56:57 +0000 http://intv.pk/?p=32783 مزید پڑھیں]]> گورنر سندھ کا دورہ کے ایم سی۔۔۔۔۔۔ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی ڈاکٹر سیف الرحمان ڈائنامک ایڈمنسٹریٹر۔۔۔۔۔۔۔سیدشجاعت حسین بہترین Combination



رضوان احمد فکری

گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے گزشتہ روز بلدیہ عظمی کراچی کا دورہ کیا۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سیف الرحمان نے انہیں مدعو کیا تھا اور بلدیہ کراچی میں کارکردگی اور جاری کاموں کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ گورنر سندھ نے میڈیا کے نمائندوں سے بھی گفتگو بھی کی۔ انکے آنے کا مقصد کے ایم سی کے بہتر مستقبل کے لئے حوصلہ اور امید دلانا ہے۔ وہ پہلے گورنر ہیں جنہیں شہری امور کے متعلق بریفنگ دی گئی۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سیف الرحمان تعیناتی کے بعد سے مسلسل کاموں میں جتے ہوئے ہیں۔ گورنر سندھ انکی سرپرستی کرتے رہے جو حوصلہ افزائی پر مبنی تھی۔ گورنر سندھ نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ تعمیر و ترقی کے کام تیزی سے ہو رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کو مبارکباد دی۔ کے ایم سی بلڈنگ شہریوں کی خدمت کے لئے قائم کی گئی تھی۔ کے ایم سی کے پاس صرف 27فیصد شہری کنٹرول ہے۔ شہر میں 7ڈی ایم سیز اور کنٹومنٹ میں بھی اختیارات کا مسئلہ ہے۔ کم وسائل کے باوجود کے ایم سی بہت کام کر رہی ہے۔ ڈاکٹر سیف الرحمان کراچی میں بھرپور کام کریں گے۔ گورنر ہاؤس سے کوآرڈ ینینشن میں برج کا کردار ادا کروں گا۔ عباسی شہید اسپتال سمیت تمام اسپتالوں کی المیہ صورتحال ہے۔ ادویات، اور اسٹاف اور عمارتوں کی حالت بھی خراب ہے۔ امید اور جزبہ کے ساتھ کام شروع ہوا ہے بہت جلد عباسی شہید اسپتال اور دیگر اسپتالوں کی حالت بہتر ہوگی۔ گورنر سندھ نے کونسل ہال کا بھی دورہ کیا۔ انہوں نے جگہ کی کمی کو دیکھتے ہوئے نئی جگہ دیکھنے کی ہدایت کی۔ گورنر سندھ کے ایم سی کو بہتر دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ جبکہ ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈائنا مک ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ وہ کے ایم سی کے تمام محکموں پر دسترس رکھتے ہیں۔ انکی کوشش ہے کہ کراچی کے شہریوں کو سہولتیں دی جائیں۔کے ایم سی کی زمینوں کو قبضہ مافیا سے چھڑا کر بہترین منصوبے لائے جائیں۔ انہوں نے کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس، الہ دین پارک کو جدید، آئی ٹی پارک، تجاوزات کے خاتمے اور کے ایم سی سائٹس پر خلاف قانون آکشن کے بغیر کار پارکنگ کو ختم کرنے کے علاوہ کے ایم سی کی ریکوریز بڑھانے کے لئے کنکریٹ پلاننگ کی ہے۔ جسے عملی جامہ پہنانے کے لئے میونسپل کمشنر سید شجاعت حسین بہترین میونسپل کمشنر اور انکا Combination ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کے الیکٹرک، کلک، ریونیو جنریشن، ایڈمنسٹریٹر کراچی کے ویژن کے مطابق فالو اپ میٹنگ کرنے کے علاوہ ادارے کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر سیف الرحمان کی یہ کوالٹی ہے کہ وہ ہر محکمہ کو متحرک کرنے کے علاوہ اسکی فعالیت کے لئے نہ صرف افسروں کو متحرک کرتے ہیں بلکہ خودموجود رہتے ہیں۔ سرکاری افسران میں انکی فعالیت اور ورکنگ بالکل مختلف ہے اور متاثر کن ہے۔ گورنر سندھ بھی انکی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ وہ کراچی کے مسائل سے واقفیت کے علاوہ اسکے حل کے لئے بھی کنکریٹ پروگرام رکھتے ہیں اور اس پر عمل بھی ہورہا ہے۔ اس سے قبل کراچی کی ترقی کے پہیہ کو چلانے کے لئے مرتضی وہاب نے ایڈمنسٹریٹرکراچی کا چارج سنبھالنے کے بعد سیاسی ایڈمنسٹریٹر ہونے کے باوجود آتے ہی کاشروع کرکے کراچی کے عوام کے آنسو پونچھ دیئے تھے۔ کے پی ٹی سے کے ایم سی کے 23کروڑ روپے وصول کئے اور میونسپل یوٹیلیٹی ٹیکس کی وصولی کے لئے کے الیکٹرک کے بلوں کے ذریعے وصولی کے لئے ایم او یو سائن کیا۔ لیکن کراچی کے اسٹیک ہولڈرز نے اسکی سیاسی بنیادوں پر مخالفت کرکے کے ایم سی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی لیکر کے ایم سی کے ریونیو کا نقصان کیا۔ جبکہ یہ ٹیکس سٹی ناظم مصطفی کمال کے دور میں نافذکیا گیا تھا۔ بجلی کے بلوں کی اوور بلنگ اور دیگر ٹیکسوں کی ادائیگی پر ان اسٹیک ہولڈرز نے کبھی تماشا نہیں لگایا لیکن کراچی کے اس اہم ادارے کے ایم سی کو مفلوج اور بھکاری بنانے میں کراچی کو حق دو کہنے والوں نے خود حق سے محروم کرادیا۔ اسی طرح ایک سرکاری ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد نے جو کے ایم سی کو تباہ کرکے گئے۔ کے ایم سی کو سوک سینٹر سے بے دخل کرایا۔ کے ایم سی کا ریونیو بڑھانے کے لئے کے الیکٹرک سے ڈیوز کی وصولی کے لئے ایک بڑی رقم کی وصولی کے لئے ڈائریکٹر لینڈ شیخ کمال کی کوششوں کو ایف آئی آر کی نذر کرکے چلے گئے۔ لئیق احمد نے کے ایم سی کے کئی ڈائریکٹرز کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ جس میں بلال منظر، کنور ایوب، رضوان احمد،

وسیم شیخ ، جاوید رحیم، احسن مرزا، اصغر درانی،ڈاکٹر سراج الحق، ڈاکٹر فاروق، راشد نظام، جبار بھٹی، کے علاوہ 25افسران شامل تھے جس میں بیشتر اب بھی تعیناتی سے محروم ہیں۔
تاہم ڈاکٹر سیف الرحمان کی تعیناتی کے بعد افسران نے سکون کا سانس لیا ہے کیونکہ وہ کام کرنے والے افسر کی قدر کرتے ہیں۔ اسکے شانہ بشانہ ہوتے ہیں۔ انکی تعیناتی کے بعد اسٹیک ہولڈرز بھی کے ایم سی میں ورکنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے قانون کی عمل داری کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے۔ انکی رٹ قابل تحسین ہے اور کراچی میں وہ پہلے افسر ہیں جنکی تعیناتی پر ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے نے خوشی کا اظہار کیا۔ بلدیہ کراچی کے افسران و ملازمین بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔ انکی کامیابی اور انکے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ اعزاز کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ بہترین اور جہاندیدہ افسر ہیں جنکی سربراہی میں کے ایم سی اور بہترین امیج بنانے میں کامیاب ہوگی۔

]]>
https://intv.pk/?feed=rss2&p=32783 0
https://intv.pk/?p=32238 https://intv.pk/?p=32238#respond Tue, 27 Dec 2022 12:53:24 +0000 http://intv.pk/?p=32238 مزید پڑھیں]]> بہترین ایڈمنسٹریٹر , ڈاکٹر سیف الرحمان

رضوان احمد فکری 

ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی ڈاکٹر سیف الرحمان نے اپنی بہترین صلاحیتوں سے کے ایم سی کو متحرک کرتے ہوئے شہر میں بہتری کے آثار پیدا کردیئے ہیں۔ اپنی تعیناتی سے لیکر روزانہ کی بنیاد پر شہر کی بہتری کے لئے کام کرہے ہیں۔ الہ دین پارک ہو تجاوزات کا خاتمہ ہو۔ کراچی میں ترقیاتی کام ہوں، افسران و ملازمین کے مسائل ہوں۔ ڈاکٹر سیف الرحمان ہر جگہ متحرک نظر آتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ سرکاری افسران میں کام اور ڈیلیوری کے لحاظ سے وہ سپر ہیرو ہیں تو یہ کہنا عین انکی کارکردگی کے مطابق ہوگا۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری، کے ایم سی کی انتظامیہ کے افسران، ایسوسی ایشنز سب انکے کام سے خوش ہیں۔ وہ کراچی کو ڈیلیور کر رہے ہیں۔ کے ایم سی کے ریونیو میں اضافہ کے لئے انکی کاوشیں نظر آرہی ہیں۔ کے الیکٹرک ڈیوز کا معاملہ ہو، پی ٹی سی ایل، پولیس ڈپارٹمنٹ، ڈی ایم سی اور دیگر اداروں سے وہ واجبات کی وصولی کے لئے کنکریٹ انتظامات کر رہے ہیں۔ کراچی کے لئے انکی تعیناتی خوش آئند اور ادارے کے لئے پرمسرت ہے۔ انہوں نے چارج سنبھالنے کے بعد ایک دن بھی گھر پر نہیں گزارا۔ وہ ہفتہ اور اتوار کو بھی دفتر اور روزانہ رات گئے تک فیلڈ میں نظر آتے ہیں۔ انسداد تجاواز ت کی کاروائیوں کو تیز تر کردیا ہے۔ ریونیو تارگٹ کی وصولی کے لئے محکموں میں جنگی بنیادوں پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ میوسپل کمشنر سید شجاعت حسین کی آمد سے ایڈمنسٹریٹر کراچی کو ایک اچھا افسر مل گیا ہے اور کام میں بہتری ہوگئی ہے۔ کراچی میں پانچ سو نشستوں پر مشتل نیا کونسل ہال تعمیر کرنے کے لئے چار مختلف جگہوں کا انتخاب بھی انہی کی ترجیحات کا حصہ ہے۔ محکمہ انجینئر نگ کو ہدایت دے دی گئی ہے۔ انہوں نے بنیادی مسائل، گاڑیوں کے کھڑے کرنے کی جگہ جدید ساؤنڈ سسٹم، انٹرنیٹ اور براہ راست کوریج کے لئے جگہ بھی رکھی گئی ہیں۔ گورنر سندھ ہی نہیں ہر ذی شعور اور محنتی افسر کے لئے تعریفی کلمات ادا کرتے ہیں جسکی وجہ ان کی ورکنگ ہے ماضی میں بھی مشکل ترین حدف اور تجاوزات کو ہٹانے میں انکی کارکردگی مثالی رہی ہے۔ وہ فیلڈ افسر ہیں افسران و ملازمیں کے درمیان رہ کر کام کرتے ہیں انکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ 9دسمبر کو چارج سنبھالنے کے بعد صرف چند دنوں میں وہ کے ایم سی کا امیج بلڈ کرچکے ہیں۔ جیل روڈ ہو یا الہ دین، بڑی سے بڑی رکاؤٹ ہو۔ بہادر افسر غیر قانونی ہائیڈرنٹ ختم کرانے خود موجود ہوتے ہیں۔ ہر شعبہ پر انکی نظر ہے۔ انکی اسپورٹس کی سرگرمیوں کی بحالی اور کے ایم سی کی ٹیموں کی بحالی بھی بہت بڑا اقدام ہے۔ جرات مندانہ فیصلے اور لینڈ مافیا کے خلاف انکی بھرپور مہم نے کراچی میں بہت سے افراد کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی بحالی اور سرکاری زمینوں پر عوامی مفاد کے پروجیکٹ انکی سربراہی میں شروع ہو چکے ہیں۔ انکے لئے گورنر سندھ نے کہا کہ میں لینڈ مافیا کے خلاف کاروائی میں انکے لئے مولا جٹ ہوں۔ ریٹائرڈ ملازمین کی حوصلہ افزائی کے لئے انکی سرپرستی خوش آئند ہے۔ فوتگی کوٹہ پر عمل درآمد، تقرری و ترقی میں انکا کردار ایسا ہے کہ انکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ چارجڈ پارکنگ پر کنٹرول، آکشن کے ذریعے ہر کام ٹرانسپرنسی کے لئے آغاز ہے اس سے کے ایم سی کا ریونیو بڑھے گا۔ کراچی کے لئے سب اسٹیک ہولڈرز کے تعاون اور قومی دنوں کی اہمیت، اقلیتوں کو بروقت تنخواہوں کی ادائیگی، انکے ساتھ شرکت و حوصلہ افزائی بھی انکی خدمات کا مظہر ہے۔ ڈاکٹر سیف الرحمان نے بیوٹیفیکشن اور زوو کی حالت زار کی بہتری پچھلے دور میں انہی کی مرہون منت ہوئی اور اسوقت سفاری پارک، کراچی زوو، کورنگی زوو، فش ایمپوریم کی بحالی، پارکوں کی درستگی، کھڈوں کی بھرائی، ثقافتی سرگرمیوں کا فروغ، ڈیڈ محکموں کو فعال کرنے کے لئے وہ بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ ویٹرنری، ای اینڈ آئی پی، لینڈ، پی ڈی اورنگی پروجیکٹ، اسٹیٹ، ایم یو سی ٹی، ایڈورٹائزمنٹ، انجینئرنگ کی تنظیم نو،ملازمین کو فوتگی کوٹہ اور ترقی کے حوالے سے انکی کاوشوں نے سب کے دل جیت لئے ہیں۔ وہ دباؤ کے بغیر کام کرنے والے افسر ہیں۔ انکی ہدایات پر کراچی میں بہتری اور بے ہنگم تجاوزات کا سلسلہ بھی ختم ہونے کی امید ہے محکمہ تجاوازت اس سلسلے میں ہمہ وقت متحرک ہے۔ ایسے زبردست ایڈمنسٹریٹر کراچی کو فی الفور چھ ماہ سے رکے ہوئے اے ڈی پی فنڈز، بلاک ایلوکیشن اور جتنی بھی رکاوٹیں ہیں دور کرکے دینے کی ضرورت ہے۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی سے سن کوٹے کی بحالی، زمینوں پر دوسرے اداروں کے قبضوں، گلشن ضیاء میں ڈپٹی کمشنر اور دیگر کے کے ایم سی زمینوں پر قبضوں، سندھ کچی آبادی کی غیر ضروری مداخلت، اتحاد ٹاؤن اور بلدیہ ٹاؤن سمیت مختلف کے ایم سی زمینوں پر مڈاخلت اور کے ایم سی ریونیو کو روکنے کے معاملات پر گورنر سندھ کو مدد کرنی ہوگی۔ با صلاحیت افسر ڈاکٹر سیف الرحمان کے ایم سی کی ترقی کا ایندھن ہیں انکی کمل سرپرستی ہونی چاہئے۔ حکومت سندھ بھی انکی مکمل معاونت کرے وہ مسیحا کی طرح کراچی شہر کی حالت زار بدلنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ کراچی کا یک اچھا نام ہیں، پہلے ہی اجلاس میں انہوں نے نپی تلی بات کی۔ ریونیو میں اضافہ کیلئے کے ایم سی ایک سو چالیس ملین روپے کی ریکوری کے لئے صرف اورنگی ٹاؤن سے، کے الیکٹرک سے اربوں روپے اور دیگر واجبات کی وصولی کے علاوہ نیلامی سے بھی اربوں روپے کی انکم حاصل کرے گی۔ کراچی کے شہری ڈاکٹر سیف الرحمان سے بہت خوش ہیں جس میں صنعت کار، تاجر، وکلاء، ہر کمیونٹی شامل ہے۔ ضرورت اس مر کی ہے کہ انکو قدم قدم پر سپورٹ اور انکی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔

]]>
https://intv.pk/?feed=rss2&p=32238 0
اگر موجودہ حکومت آگے جاری رہتی ہے تو اسے مزید تباہی اور ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا https://intv.pk/?p=27331 https://intv.pk/?p=27331#respond Sun, 22 May 2022 08:20:00 +0000 http://intv.pk/?p=27331 مزید پڑھیں]]> خود پہنے جانے والا گلے کا ہار پھندا بن گیا

حکومت کی جائے یا نہیں، حکومتی اتحادی پیر کو سر جوڑ کر بیٹھیں گے

موجودہ صورتحال میں حکومت چھوڑنے کا فیصلہ سامنے آسکتا ہے

سابق وزیراعظم عمران خان حکومت کیلئے گلے کی ہڈی بن کر اٹک چکے ہیں

معاشی صورتحال اسقدر خراب ہے کہ حکومت کرنے والے ذلت ورسوائ کے سوا کچھ نہیں حاصل کرسکیں گے

معاشی صورتحال کی بدتری میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ بھی بری الذمہ قرار نہیں دی جاسکتیں

سابق وزیراعظم عمران خان یہ کہہ کر پھنس گئے ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہورہی ہے

اگر ایسا ہوتا تو اسوقت ملک دیوالیہ ہونے کی جانب ہرگز نہیں جارہا ہوتا

موجودہ حکومت کے پاس قرضے لینے کے سوادیگر وسائل سے ملک چلانا مشکل ہورہا ہے

ملک کی موجودہ صورتحال اس بات کی دلیل ہے کہ سابق وزیراعظم بھی ملک کو بند گلی میں پہنچانے میں ملوث ہیں

اگر انکے دور میں معیشت بہتر ہوئی تھی تو اس کے نتائج کچھ نہ کچھ ضرور برآمد ہوتے

اتحادی جماعتیں حکومت لے کر پچھتاوے کے گہرے سمندر میں غرق ہیں

ان کی بیوقوفی نے ایک مرتبہ پھر عمران خان کی سیاست کو زندہ کر دیا ہے

اگر موجودہ حکومت آگے جاری رہتی ہے تو اسے مزید تباہی اور ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا

ملک چلانے کیلئے پیٹرول، گیس، بجلی سمیت مہنگائی کو بڑھانا پڑے گا

جس کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچے گا

ملک کی صورتحال ایسی ہے کہ محض پیٹرول کی قیمتیں تیس سے پچاس روپے فی لیٹر بڑھانا پڑیں گی

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتے ہی مہنگائی کا طوفان آئے گا

یہ طوفان موجودہ حکومت اور ان کے اتحادی بالخصوص ن لیگ کیلئے بہت خطرناک ثابت ہوگا

ممکن ہے کہ ن لیگ کی سیاست طویل عرصے تک ڈبے میں بند ہوجائے

تحریک انصاف حکومت چھوڑنے اورعوام کیلئے کچھ نہ کرنے کے باوجود سیاسی دوڑ میں آگے ہے

پیر 23 مئی طے کرے گی کہ ہونے والا فیصلہ درست سمت میں لے جائے گا یا بند گلی میں

]]>
https://intv.pk/?feed=rss2&p=27331 0
بلدیاتی ترمیمی بل پر جماعت اسلامی اور حکومت سندھ کا ترمیمی بل پر جماعت اسلامی اور حکومت سندھ کا اتفاق کن نکات پر تفصیلات سامنے آگئیں کن نکات پر تفصیلات سامنے آگئیں https://intv.pk/?p=24194 https://intv.pk/?p=24194#respond Sun, 30 Jan 2022 11:03:58 +0000 http://intv.pk/?p=24194 مزید پڑھیں]]> بلدیاتی ترمیمی بل پر جماعت اسلامی اور حکومت سندھ کا اتفاق کن نکات پر تفصیلات سامنے آگئیں

نکات کے تحت سندھ حکومت نے اقدامات کئے تو بلدیاتی ادارے مستحکم ہو جائیں گے

کراچی(رپورٹ:فرقان فاروقی)سندھ حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان بلدیاتی ترمیمی بل کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات سامنے آگئیں جس پر اتفاق کرنے کے ساتھ حکومت سندھ کی جانب سے یقین دہانی کروائ گئ ہے کہ اس حوالے سے دو ہفتوں میں عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا اس سلسلے میں جن نکات پر اتفاق کیا گیا ہے اس میں محکمہ صحت اور تعلیم بلدیاتی اداروں کو واپس کر دئیے جائیں گے، منتخب مئیر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا چئیرمین ہوگا، بلدیاتی انتخابات کے تیس دن میں صوبائ مالیاتی کمیشن کی تشکیل عمل میں لاکر اس کے اجلاس منعقد کر کے آکٹرائے ضلعی ٹیکس 1999-2000 کے طے شدہ فارمولے کے تحت فراہم کیا جائے گا، یوسیز کو فنڈز کی فراہمی آبادی کی بنیاد پر کی جائے گی، بلدیاتی اداروں کو موٹروہیکل ٹیکس سے معقول حصہ بطور فنڈ فراہم کیا جائے گا، صوبے میں پبلک سیفٹی کمیشن تشکیل دئیے جائیں گے جس کا چئیرمین متعلقہ مئیر /چئیرمین ہوگا،تعمیروترقی، پلاننگ سہولیات کے تمام محکموں سمیت ڈیولپمنٹ اتھارٹیز مئیر / چئیرمین کے ماتحت ہونگی، بلدیاتی نمائندگان کی مدت کی تکمیل سے 90 روز قبل بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا جائے گا، مزید مطالبات جس پر اتفاق کیا گیا اس میں کراچی کیلئے 650 ایم جی ڈی فراہمی آب کے منصوبے کی تکمیل کیلئے سندھ حکومت، وفاق پر زور ڈالے گی تاکہ منصوبے کی تکمیل کے بعد کراچی کو اضافی پانی میسر آسکے، سندھ حکومت حب کینال،کےبی نہر سے 65 ایم جی ڈی پانی کے منصوبے کو جلد مکمل کرے گی، تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کی بحالی کیلئے فوری قانون سازی کرے گی، کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلوانے کیلئے سندھ حکومت، بلدیہ عظمی کراچی کو مدد فراہم کرے گی، مذکورہ تمام نکات پر دونوں جانب سے اتفاق کیا گیا ہے اگر یہ نکات حتمی شکل میں سامنے آتے ہیں اور انہیں قانون کا حصہ بنالیا جاتا ہے تو بلدیاتی ادارے کافی حد تک مستحکم ہو جائیں گے اور دیگر اداروں پر بلدیاتی اداروں کا کنٹرول ہونے سے عوام کے مسائل ون ونڈو آپریشن کے ذریعے حل کروائے جاسکیں گے.

]]>
https://intv.pk/?feed=rss2&p=24194 0
ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی کی ترجیحات کیا ہونی چاہیئں؟ https://intv.pk/?p=18799 https://intv.pk/?p=18799#respond Mon, 09 Aug 2021 18:12:31 +0000 http://intv.pk/?p=18799 مزید پڑھیں]]> ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی کی ترجیحات کیا ہونی چاہیئں؟

محمد فرحان ادریسی

کراچی گھمبیر مسائل میں گھرا ایسا شہر ہے جسے حل کرنے کیلئے غیر مرئی قوتوں کی ضرورت ناگزیر ہوچکی ہے،کراچی کے مسائل کا آغاز اس وقت ہو چکا تھا جب بے ہنگم اور پلاننگ کے بغیر تعمیراتی منصوبے شروع ہوئے ان میں زیادہ تر رہائشی منصوبے تھے جونجی سطح پر سامنے آئے،یہ منصوبےکراچی کی آبادی کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی طرف لے گئے جس کا نقصان یہ ہوا کہ کراچی کے محدود وسائل مزید محدود ہوگئے کراچی کا کچرا سن 2000 سے تاحال پچاس فیصد بڑھ چکا ہے سیوریج، پانی کی لائینوں پر اسی لحاظ سے بوجھ بڑھ چکا ہے رہائشی منصوبوں پر مشتمل آبادیاں اپنے منصوبوں کے اندر سے کچرا اٹھا لیتے ہیں لیکن وہ کچرا، کچرا کنڈیوں تک پہنچتا ہے جہاں سے کچرا لینڈ فل سائیٹس تک پہنچانا سرکاری ادارے سرانجام دیتے ہیں، اس اضافی بوجھ کی وجہ سے آج بھی کراچی سے مکمل طور پر کچرا نہیں اٹھ پاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کراچی، کچرابم بناہوا ہے، پانی و سیوریج کی لائنیں اضافی بوجھ برداشت نہ کرنے کی وجہ سے آئے دن رستی رہتی ہیں کیونکہ ان پر گنجائش سے کہیں زیادہ بوجھ ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے پڑھے لکھی عوام کو بھی آج تک سیوریج اور برساتی نالے کا فرق معلوم نہیں کیونکہ یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ برساتی نالے اور سیوریج نالے کیا ہوتے ہیں، انفراسٹرکچر ایسا ترتیب پاچکا ہے کہ کراچی میں برساتی اور سیوریج نالے یکجائی ہوچکے ہیں، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نالہ صفائی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا لیکن اس کے سیوریج کنکشنز نالوں میں واضح طور پر موجود ہیں لہذا نالوں کو برساتی نالہ نہ ہی کہا جائے تو بہتر ہوگا،نالوں میں سب سے خطرناک رحجان یہ ہے کہ بیش تر نالوں میں سے سوئی گیس، بجلی کے انڈر لائین کنکشنز گزرنے کے ساتھ ہم جس کا نصف ایمان صفائی ہے پانی کی لائنیں بھی نالوں میں اتار چکے ہیں، نالے تارکین وطن کی وجہ سے کچرا بُرد کرنے کے بھی مرکز بن چکے ہیں شہری بھی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نالوں میں کچرا ڈالنے سے گریز نہیں کرتے نتیجہ سب کے سامنے ہے نالے تجاوزات، ناجائز تعمیرات ومذکورہ سرگرمیوں کا مرکز بن چکے ہیں برسات ہوتی ہے تو ان ہی وجوہات کی وجہ سے پانی سمو کر آگے بڑھانے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے نالے علاقوں کو ڈبو دیتے ہیں جس سے ہر سال برسات میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اور یہ ہی حال کراچی سے مکمل طور پر کچرا نہ اٹھائے جانے اور سیوریج کی غلاظت کی وجہ سے بھی ہورہا ہے ان تین بڑی وجوہات کی وجہ سے کراچی کے شہری ایک کے بعد ایک وائرس کی موجودگی کی وجہ سے گُھٹ گُھٹ کر مر رہے ہیں اور بدنام کورونا ہورہا ہے جبکہ کراچی میں بقول شاعر “موت تو بلاوجہ بدنام ہے صاحب”
اسباب موت کو بھی قصور وار ٹہرائیے”،کراچی کے بے تحاشا مسائل میں مذکورہ تین مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی مرتضی وہاب حل کروانے میں کامیاب ہوگئے تو کراچی دوبارہ اپنے پلیٹ فارم پر آنا شروع ہوجائے گا، پہلا مسئلہ کراچی میں پیدا ہونے والے کچرے کی مکمل طور پر لینڈ فل سائیٹس تک منتقلی ہے، کراچی میں روزانہ پیدا ہونے والے کچرے کی مقدار 15 ہزار ٹن کے لگ بھگ ہے لیکن دلچسپ حقائق یہ ہیں کہ یہ کچرا 19 خودمختار ادارے اٹھاتے ہیں، شہری حکومت کے ‘کراچی ترقیاتی حکمت عملی منصوبہ 2020’ کے مطابق کراچی شہر کے کُل رقبے کا 48.5فیصد علاقہ سندھ حکومت، 12.3 فیصد وفاقی اداروں، 32.7 فیصد شہری یا بلدیاتی حکومت جبکہ 6.5 فیصد رقبہ صنعتی زونز اور تعلیمی اداروں کے زیر انتظام ہے،کراچی میں وفاقی حکومت کے زیر انتظام اداروں میں سے چھ چھاؤنیاں بشمول کلفٹن، فیصل، کراچی، ملیر، کورنگی اور منوڑہ کنٹوئمنٹس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ائیر فورس مسرور ائیر بیس، پاکستان ائیر فورس فیصل ائیربیس سمیت دو ملٹری ائیر پورٹس، کراچی پورٹ اور بن قاسم پورٹ سمیت دو بندرگاہیں، سول ایوی ایشن، بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی یعنی ڈی ایچ اے، ریلوے، رینجرز، کوسٹ گارڈ، میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی، پاکستان نیوی، ائیرفورس، قومی شاہراہ یعنی نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے، شہر کی بڑی سرکاری جامعات، سائٹ، کورنگی انڈسٹریل ایریا سمیت شہر کے پانج بڑے صعنتی زون کا مکمل انتظامی کنٹرول وفاق کے پاس ہے، ایسے میں کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کیلئے مربوط حکمت عملی بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکتی، سندھ حکومت کے زیر انتظام سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ جتنی کوشش کرلے جب تک اسے پورے کراچی سے کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا اختیار نہیں ملے گا یہ مسئلہ حل ہونا مشکل ہے، بیرسٹر مرتضی وہاب کو ایک چھتری تلے اس مسئلے کو حل کروانے کیلئے سر توڑ کوششیں کرنی پڑیں گی یہ معاملہ ایک چھتری تلے لانے میں وہ کامیاب ہوجائیں تو کراچی کا کچرا اڑن چھو ہوجائے گا اس کا سب سے آسان حل کچرے کی ری سائیکلنگ اور بجلی پیدا کرنا ہے اگر اس سلسلے میں معاہدے کر کے کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے تو یہ مسئلہ پائیدار بنیاد پر حل ہوسکتا ہے کیونکہ جو بھی کمپنی کچرے کی ری سائیکنگ یا بجلی بنانے کا معاہدہ کرے گی وہ کچرے کے عوض معاوضہ دینے کو بھی تیار ہوگی،اس بنیاد پر کراچی کے 19 خودمختار کچرا اٹھانے پر معمور ادارے ایک چھتری تلے آسکتے ہیں، دوسرا مسئلہ پانی اور سیوریج کے مسائل کا ہے کیونکہ ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب حکومت سندھ کے اہم نمائندے ہیں لہذا وہ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے کہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے سابق مئیر کراچی وسیم اختر پر یہ لفظ سُوٹ کرتا تھا کیونکہ حکومت سندھ ان کی سیاسی پارٹی کی نہیں تھی لیکن مرتضی وہاب کیلئے یہ کہنا ان کی جان نہیں چھڑوا سکتا،انہیں پانی اور سیوریج کے مسائل حل کروانے پڑیں گے اور ان مسائل کے حل کیلئے بھی انہیں زمینی حدود جیسی مشکلات کا سامنا ایک چھتری تلے لاکر حل کروانا پڑے گا،تیسرا بڑا مسئلہ بلدیہ عظمی کراچی اور ضلعی بلدیات کے دائرہ کار میں آتا ہے اور وہ مسئلہ نالوں کی صفائ اور اسے اسٹریم لائین کرنے کا ہے، تجاوزات اور ناجائز تعمیرات نے نالوں کی صفائ میں بریک لگا دیا ہے ایک جانب نالہ صاف ہو جاتا ہے تو آگے جاکر مذکورہ مسئلہ نالوں کو صاف نہیں ہونے دیتا جبکہ سن 1990 کی دہائ تک کراچی میں یہ ہی نالے موجود تھے جو تہہ تک صاف ہوتے تھے،شہر کے نالے بکتے رہے اور سب خاموش تماشائ بنے رہے لہذا قصور وار کسی ایک کو ٹہرانا زیادتی ہوگی سیاسی اور سرکاری افرادی مشینری نے کراچی کے نالوں کو تماشہ بنا کر رکھ دیا آج نوے کی دہائ میں تہہ تک صاف ہونے والے نالے لبالب بھرے رہتے ہیں جب مون سون سیزن آتا ہے تو نالوں کے چوکنگ پوائنٹس کو کلئیر کرنے کی حکمت عملی اپنا کر برساتوں کو گزار لیا جاتا ہے لیکن حالیہ سندھ حکومت نے اس جانب سنجیدگی سے توجہ دی ہے تو صورتحال کافی بہتر ہورہی ہے نئے نالے بھی تعمیر ہورہے ہیں اور نالوں سے تجاوزات اور ناجائز تعمیرات کا بھی خاتمہ ہورہا ہے، ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی کے پاس ایک اچھا موقع ہے کہ وہ کراچی کے نالوں کی مکمل صفائ کو یقینی بنوادیں کیونکہ عدلیہ بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہے کیونکہ عدلیہ کے بار بار احکامات کے بعد نالوں سے تجاوزات وناجائز تعمیرات کا خاتمہ ممکن بنایا گیا ہے اس سلسلے کو جاری رکھا گیا تو سیاسی نقصان ضرور ہوسکتا ہے لیکن کراچی میں نالوں کا نیٹ ورک درست سمت میں گامزن ہو جائے گا اور سو ملی میٹر کی برسات کے بعد بھی انہیں جگہ جگہ جاکر نکاسی آب کے کام سر انجام دلوانے کی زحمت ختم ہوجائےگی،مذکورہ تین مسائل حل کروانے میں ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی مرتضی وہاب کامیاب ہوگئے تو بقایا مسائل مرحلہ وار حل ہونا شروع ہو جائیں گے کیونکہ کراچی کا انفراسٹرکچر خراب کرنے میں جہاں عمارتی جنگل کا کردار ہے وہیں یہ تین مسائل سڑکوں، گلی، محلوں کا زمینی انفراسٹرکچر کھا گئے ہیں، سڑک یا کوئ بھی ترقیاتی کام اسوقت قائم ودائم رہے گا جب کچرا، سیوریج اور نالوں کی گندگی اسے نقصان نہ پہنچائے یہ تینوں مسائل اس حد تک خطرناک ہیں کہ یہ کسی بھی انفراسٹرکچر کو ہضم کر جاتے ہیں اور لکیریں پیٹنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب سے گزارش ہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر ان تین مسائل پر توجہ دیں تو کراچی کو مسائل کے جنگل سے نکالنا آسان ہوجائے گا بصورت دیگر لیپا پوتی چلتی رہے گی لیکن اندر سے کھوکھلا پن کم ہونے کے بجائے بڑھے گا، سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کو بھی کراچی کے شہریوں کو اپنی جانب راغب کرنا ہے تو اسے یہ تین کام ترجیحی بنیادوں پر کرنے ہی پڑیں گے.

]]>
https://intv.pk/?feed=rss2&p=18799 0
خنجر گھونپنے سے بہتر ہے خاموش رہیں https://intv.pk/?p=18651 https://intv.pk/?p=18651#respond Sun, 01 Aug 2021 18:37:17 +0000 http://intv.pk/?p=18651 مزید پڑھیں]]> خنجر گھونپنے سے بہتر ہے خاموش رہیں

محمد فرحان ادریسی

قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان کو پنپتا دیکھ کر بیرونی قوتوں نے قیام کے بعد سے تاحال یہ سازش کی کہ اس ملک کو کسی صورت نہ پنپنے دیا جائے جس کی سب سے اہم وجہ اس ملک کے قیام کی وجوہات ہیں ملک دشمن عناصر کو یہ کسی صورت گوارہ نہیں کہ یہ ملک کسی بھی لحاظ سے ترقی کرےاس کیلئے آج تک فرقہ واریت اور لسانیت کا حربہ استعمال کیا جارہا ہے، اب اس میں عسکری اداروں کو بدنام کرنا بھی شامل ہوچکا ہے،یہ وہ خطرناک حربہ ہے جو کھلی جنگ ہے جس کے خطرات سے ناآشنا لوگ اس کا حصہ بن کر پاکستان کی سالمیت پر خنجر گھونپ رہے ہیں سوشل میڈیا نے جہاں ہر ایک انگلی کو صحافی، تجزیہ نگار اور نہ جانے کیا کیا بنادیا ہے وہیں ان انگلیوں میں وہ ملک دشمن عناصربھی شامل ہوچکے ہیں جن کا مشغلہ اور منصوبہ عسکری اداروں کو حرف تنقید بنانا ہے یہ ایسی غیر محسوس جنگ ہے جس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں تحریری مواد پر بلا تصدیق یقین کرنے والوں کی وجہ سے یہ دائرہ کار وسیع ہوتا جارہا ہے سوشل میڈیا نے جہاں آگاہی کے دروازے کھولے ہیں وہیں مدفون وہ قوتیں بھی سامنے آگئیں جن کو عسکری اداروں پر تنقید کرنے کے علاوہ کچھ اور کام نہیں ہے اور مقرر کئے گئے یہ ڈائنامائیٹس پاکستانیوں کے ذہنوں کو خراب کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں، یہ چیدہ چیدہ واقعات کو ہولناکی کا روپ دیکر پاکستانیوں کو اپنی ہی عسکری اداروں کے خلاف کرنے کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں غلطیوں، کوتاہیوں سے کوئ ادارہ مبرا نہیں ہے لیکن اس کی اصلاح کیلئےطریقہ کار ہوتا ہےخاص طور پر عسکری اداروں کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بنانے والے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس قوم کو کس طرح گمراہ کرنا ہے جبکہ باشعور لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کوئ منفی پہلو ہے بھی ہے تو اسے انگلیوں کی جنبش کے بجائے کس طرح دور کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہے جس سے اصلاح بھی ہو جائے اور کسی قسم کا تذلیلی عمل بھی نہ ہو لیکن ذرائع ابلاغ سمیت سوشل میڈیا کی آزاد حیثیت نے اس عمل کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے، پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے اپنی ہی عسکری اداروں پر طنز وتنقید کے تیر برسا دئیے جاتے ہیں جو ملک دشمن عناصر کی توپ بن جاتے ہیں جس کا جواب دینے کیلئے ان قلمکاروں کو میدان میں آنا پڑتا ہے جو اس ملک کی شان کو کبھی بھی پیروں تلے روندنے کے خلاف ہیں
ایسا کیوں ہورہا ہے؟
جب عسکری اداروں کی جانب ملک دشمن قوتوں کو ہر جانب سے پسپائ حاصل ہوئ تو ان کی جانب سے تینوں حربے ایک ساتھ استعمال کئے جارہے ہیں تاکہ پاکستان کو خطرات ہی لاحق رہیں، فرقہ واریت اور لسانیت کی جڑیں اسقدر مضبوط کر دی گئ ہیں کہ پاکستان میں سندھی، مہاجر، پنجابی، سرائیکی، ہندکو، پشتون، بلوچ ودیگر قومیتوں سمیت سنی، شیعہ، دیوبندی، اہل حدیث، بریلوی تلاش کرنا بہت آسان ہے لیکن نہ تو پاکستانی دستیاب ہے اور نہ ہی مسلمان، افواج پاکستان موجود ہے جس کا وجود پاکستان کے وجود کے ساتھ روح اور جان جیسا ہے لیکن پاکستانیوں کی کمی کی وجہ سے روح اور جان چھلنی ہیں،ملک دشمنوں کی وجہ سے افواج پاکستان سے نفرت کو بڑھاوا دیا جارہاہے جس کو نچلے درجے سے اعلی درجے تک محظوظ ہونے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ خطرناک عمل ہے جس سے کنارہ کشی ضروری ہے لیکن پاکستانیوں کی اب بھی بڑی تعداد میں موجودگی کی وجہ سے یہ جنگ بھی ناکام ہو رہی ہے دراصل کھیل سجانے میں مواقع میسر کرنے میں بھی ہمارا ہی ہاتھ ہے ہم ہی ان کے کارندے بن گئے لسانی تقسیم کا اصل ذمہ دار ہم خود ہیں زیادتیوں کی وجہ سے لسانی تقسیم اور باہمی نفرتیں پروان چڑھیں مسلمان کے بجائے فرقہ واریت میں پڑ گئے ہر پاکستانی سے درخواست ہے کہ کبھی مکمل تنہائ میں سوچیں کہ جب پاکستان بنا تھا تو کیا ہم لسانی اور فرقہ ورانہ اکائیوں پر مشتمل تھے بالکل ایسا نہیں تھا سوچ ایک تھی نظریہ ایک تھا دکھ وخوشیاں سانجھی تھیں پھر پچاس کی دہائ کے بعد سے جو لسانی اور فرقہ ورانہ تقسیم شروع ہوئ تو وہ آج چلتا پھرتا بم بن چکی ہے پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش میں تقسیم ہو چکا ہےپھر بھی ہم یہ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں کہ دراصل ہم خود اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں سوچوں کا محور پاکستان ہونے کے بجائے کچھ اور ہی ہے لیکن کم ازکم اس سے عسکری اداروں کو دور رکھنا چاہیئے دنیا کی ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ مخلص افواج کیخلاف جب بھی کوئ قوم کھڑی ہوئ وہ گوشہ نشین ہوگئ مغل، سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے پیچھے غداروں کی کہانیاں تاریخ کا حصہ ہیں ان واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ جس ملک کی سالمیت کا انحصار جن قوتوں پر ہے اس کیخلاف کسی طور بھی استعمال نہ ہوں خنجر گھوپنے سے بہتر ہے خاموش رہ کر اپنا کردار ادا کریں اور ان قوتوں کو چاہیئے کہ کوئ ایسی چیز پروان چڑھانے کا سدباب کریں جو ملک کیلئے زہر قاتل ہیں، لیکن ایک بات ہر ایک کو سمجھ میں آجانا ازحد ضروری ہے کہ یہ ملک “اللّہ اور نبی کریم صلّی اللّہ علیہ وسلّم کی دین ہے ہمیں ناشکری نہیں کرنی ہے دراصل یہ بات برحق ہے کہ اصل حاکم اللّہ ہے “اس کے بعد بات بالکل واضح ہے کہ جب پاکستان پر خاص نظر کرم ہے تو جو اسے نقصان پہنچانے کا موجب بنے گا وہ اپنا انجام اسی دنیا میں دیکھ لے گا، ماضی کھنگال کا دیکھ لیں کیا ایسا نہیں ہوا ہے؟ لہذا اصلاح ضرور کریں لیکن دانستہ یا نادانستہ طور پر پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ نہ بنیں کیونکہ خنجر گھونپنے سے بہتر ہے کہ خاموش رہا جائے.

]]>
https://intv.pk/?feed=rss2&p=18651 0
مقامی حکومتوں کا نظام کیا اور کن عوامل پر مشتمل ہونا چاہیئے https://intv.pk/?p=14656 https://intv.pk/?p=14656#respond Sun, 28 Feb 2021 19:59:43 +0000 http://intv.pk/?p=14656 مزید پڑھیں]]> مقامی حکومتوں کا نظام کیا اور کن عوامل پر مشتمل ہونا چاہیئے

(قسط نمبر ایک)

تحریر: فرقان فاروقی

مقامی حکومت اور اس کی ترتیب

بلدیاتی یامقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے سندھ حکومت اسوقت صوبائی وزراء کے ذریعے بہتربلدیاتی نظام لانے پر غور کر رہی ہے،اس سلسلے میں اجلاسوں کا انعقاد بھی کیا جارہا ہے اور یہ ہی سلسلہ دیگر صوبوں میں بھی جاری ہے کہ ایسا مقامی حکومتوں کا نظام لایا جائے جو گراس روٹ لیول تک یعنی نچلی سطح تک عوام کے مسائل کو حل کرنے میں معاونت فراہم کرے،ممکن ہے کہ سندھ حکومت ایسا بلدیاتی نظام متعارف کروانے کی کوشش کر رہی ہو جو اصل سطح پر ٹارگیٹ کر کے کراچی سمیت سندھ کے شہری ودیہی علاقوں کے بلدیاتی مسائل دور کرنے میں معاونت فراہم کرسکتا ہو، جس اصل سطح “گراس روٹ لیول”کا ذکر کیا گیا ہے وہ بلدیاتی نظام کی اساس ہے جب تک اسے خدمات کا مرکز نہیں بنایا جائے گا سندھ میں نہ شہر ترقی کرسکیں گے اور نہ ہی دیہی علاقے،سندھ میں نافذ موجودہ بلدیاتی نظام میں یونین کمیٹی یا یونین کونسل کو گراس روٹ لیول کہا جاسکتا ہے، سندھ کو ایسے بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کے نظام کی ضرورت ہے جس میں ایک چھتری تلے ہر بلدیاتی وشہری سہولیات میسر آسکیں،مختلف شہری وترقیاتی سہولیات پہنچانے والے ادارے، اداروں کے طور پر خدمات سر انجام دیں درست ہے کیونکہ سب کی کنٹرولنگ اتھارٹیز موجود ہیں جنہیں چھیڑنا مناسب نہیں لگتا مگر ان کی باگ ڈور مئیر کراچی کے ہاتھوں میں ہونی چاہیئے اور مئیر کراچی کا کام خدمات کی فراہمی کو نچلے درجے تک پہنچانا ہونا چاہیئے،گزشتہ چار سالوں میں مئیر سمیت بلدیاتی چئیرمینز مخصوص بلدیاتی سہولیات کی فراہمی تک محدود رہے، پانی،سیوریج، بلڈنگ کنٹرول،دیگر لینڈ کنٹرولنگ اتھارٹیز ان کی دسترس سے کوسوں دور رہیں جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ادارے سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے ترقیاتی کاموں کا نظام قائم کرنے میں بلدیاتی ادارے بری طرح ناکام رہے، شہر ہو یا دیہی علاقہ جات ان کی ترقی کا دارومدار نچلی سطح پر مضبوط بلدیاتی اداروں سے ہوتا ہے ایسا سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے کیونکہ سندھ حکومت میٹروپولیٹن کارپوریشن، میونسپل کارپوریشنز، ڈسٹرکٹ کونسلز، میونسپل کمیٹیز،ٹاؤن کمیٹیز کو فنڈز کی ترسیل میں ہاتھ کھینچتی رہی جبکہ ان ہی بلدیاتی اداروں نے گراس روٹ لیول کو مضبوط کرناہے گراس روٹ لیول یعنی یونین کمیٹی یا کونسل کو سندھ حکومت براہ راست فنڈنگ کرتی رہی جو اتنی تھی جس میں ملازمین ومنتخب نمائندگان کی تنخواہوں کے اجراء کے بعد کچھ نہیں بچتاتھا اس کے مقابل مذکورہ بلدیاتی اداروں کو فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے مضبوط بنایا جاتا تو ان ہی کے ذریعے یوسیز کو مضبوط بنایا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی سمیت پورا سندھ مسائلستان کا جنگل بن گیا چند اچھے کام ضرور ہوئے ہیں لیکن وہ بے شمار مسائل کی وجہ سے شمار ہی نہیں کئے جاتے، سندھ کا بنیادی مسئلہ ایسا بلدیاتی نظام ہے جو ریونیو جنریشن کے لوازمات کے ساتھ تسلط سے پاک ہو سندھ حکومت کا اختیار ایک پاور فل ایڈمنسٹریٹر کا ہونا چاہیئے جو درست سمت میں کام نہ کرنے والے بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندگان اور افسران کا کڑا احتساب کرسکےایسا بالکل نہیں ہونا چاہیئے کہ صوبائی کنٹرول میں بلدیاتی وشہری ادارے مفلوجیت کے ساتھ خدمات سر انجام دیں سندھ حکومت کہے تو یس سر اور نہ کہے تو خاموشی، بااختیار مقامی حکومتوں کے نظام کیلئے آئین پاکستان کا آرٹیکل 140 اے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ صوبائی حکومتیں ایسا مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کروائیں گی جس میں بلدیاتی نمائندگان کو انتظامی، سیاسی اور مالی اختیارات منتقل کئے جائیں گے ایسا کرنے کیلئے انتظامی طور پر بلدیاتی اداروں کوجداگانہ حیثیت دینا لازمی ہےاس سے قبل بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ بلاوجہ دباؤ میں رکھ کر مقامی حکومتوں سے نتائج کی امید رکھنا ممکن نہیں ہے سیاسی اختیارات کا مطلب بلدیاتی اداروں کو سیاسی طور پر مستحکم رکھنا ہے اگر انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں تو مئیر، چئیرمین کو سیاسی بنیاد پر آزادی ہونی چاہیئے اور انہیں اپنے بلدیاتی ادارے میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کا احترام بھی یقینی بنانا ہوگا سیاسی اختیارات کی ضرورت ایسی صورتحال میں درپیش آتی ہے جب صوبائی اور مقامی حکومتوں میں مخالف سیاسی جماعتیں موجود ہوں لہذا مذکورہ سیاسی اختیارات منتقل کرنے کا مقصد ایکدوسرے کے عقائد کا احترام کرنا ہے،مالی انتظامات منتقل کرنا سب سے اہم کام ہے اور یہ ہی معاملہ ایسا ہے جس کی کمی یا ذرائع آمدنیوں کی کمی کی وجہ سے بلدیاتی ادارے کبھی بھی پنپ نہیں پارہے ہیں مکمل مالی اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل ہونا لازمی امر ہے اس تحریر کا مقصد بلدیاتی نظام کو آئین کے مطابق قائم کرنے کے ساتھ سب سے اہم کام تمام شہری اداروں کو ایک چھتری تلے خدمات فراہم کرنے کے قابل بنانا ہے کئی چھتری تلے موجود ادارے مقامی حکومت کے تحت لانا لازمی امر ہے ورنہ آئین پاکستان کے مطابق بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کا کوئی بھی نظام لانا سود مند ثابت نہیں ہوسکتا دنیا کے بلدیاتی نظام کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ وہ علاقوں کی دسترس سے آزاد ہیِں انہیں جو شہر، قصبہ، ڈسٹرکٹ یا یونین کونسل دیا جاتا ہے وہاں وہ اس بات کے منتظر نہیں ہوتے کہ یہاں کوئی اور اتھارٹی کام یا میونسپل قوانین پر عمل درآمد یقینی بنائے گی بلکہ وہ مکمل طاقت کے ساتھ فنڈز بھی اکٹھا کرتے ہیں، ترقیاتی کام بھی کرواتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر میونسپل قوانین کے تحت کاروائیاں بھی کرتے ہیں، دنیا کے ان مقامی حکومتوں کی کامیابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اختیارات ایک چھتری تلے نچلی سطح پر منتقل ہیں جسے ریاست تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ سخت مانیٹرنگ کا کردار ادا کرتی ہے اور اسی کی ضرورت پاکستان میں بھی محسوس کی جارہی ہے.

]]>
https://intv.pk/?feed=rss2&p=14656 0
ترقی کے سفر کے لئے پرعزم۔ایڈمنسٹریٹر کراچی کے درست سمت میں اقدامات۔ https://intv.pk/?p=14419 https://intv.pk/?p=14419#respond Sun, 21 Feb 2021 14:58:06 +0000 http://intv.pk/?p=14419 مزید پڑھیں]]> ترقی کے سفر کے لئے پرعزم۔۔۔۔۔۔۔ایڈمنسٹریٹر کراچی کے درست سمت میں اقدامات۔ ریونیو کے لئے وزیر اعلی و صوبائی وزیر اور کی ایم سی افسران ایسوسی ایشن کی کوشش


تجزیہ نگار:رضوان احمد فکری

کراچی کے لئے 52فائر ٹینڈرز آنا اور کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے عزم، بلدیہ کراچی کے اسپتالوں اور وسائل کو محفوظ اور نجی اداروں کے تعاون سے بہتر کرنے کی کوشش، کراچی میں تجاوزات بالخصوص نالوں پر سے تجاوزات کا خاتمہ، نالوں کو چوڑا کرنے کے،منصوبے پر وفاق، صوبہ اور بلدیہ عظمی کراچی کی کاوشیں، تجاوزات کے خلاف سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، ریلوے،انسداد تجاوزات کی دن رات محنت شہر کراچی کے لئے نیک شگون ہے۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی لئیق احمد سسٹم ٹھیک کرنے بلدیہ کراچی کو متحرک ادارہ بنانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ کراچی میں شجر کاری مہم، فلاور شو، تعلیمی میدان میں انکی اچھی سوچ اور کے ایم ڈی سی کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے کا عزم بہترین سوچ کا عکاس ہے۔ بلدیہ کراچی کو ملنے والے فائر ٹینڈرز کے درست استعمال کے لئے انہوں نے میٹینس کے لئے فوری اقدام اور نجی اداروں کی مختلف مدات میں خدمات کے لئے جو قدم اٹھایا ہے اس سے بھی فرق آئے گا۔ گو بلدیہ کراچی ماضی کے حکمرانوں اور غلظ پالیسیوں کی وجہ سے شدید مالی بحران سے گزر رہی ہے۔ تنخواہوں تک کے پیسے نہیں۔ عدالت نے پنشنرز کے معاملے پر اثاثہ جات تک بیچنے کا حکم دے دیا ہے لیکن بلدیہ کراچی نے اپنی بہترین کاوشوں سے اس بحران سے نکلنے کی ٹھانی ہے۔ جس میں صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی سربراہی میں کمیٹی بھی قائم ہوئی ہے جو بلدیہ کراچی کا ریونیو بڑھائے گی۔ ٹیکس اور اثاثہ جات کے حوالے سے فیصلہ کریگی اور اپنی سفارشات براہ راست وزیر اعلی سندھ کو دے گی۔ کے ایم سی کی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن اور افسران بھی بلدیہ کراچی کے وسائل ممیں اضافہ کے لئے متحرک ہیں۔ جنرل سیکریٹری بلال منظر نے عملی کام کیا ہے جس میں چارجڈ پارکنگ سائٹس میں اضافہ، میونسپل یوٹیلیٹی بلز گھر گھر بھیجنے، ٹیکس نیٹ میں اضافہ، مختلف محکموں کی ریکوریز میں اضافہ کے لئے کافی کام شروع کیا ہے۔ سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی افتخار شلوانی بھی ڈی ایم سیز کی جانب سے کے ایم سی کی ریکوریز میں گھسنے کی شکایت پر حکم نامہ جاری کرکے گئے تھے جس پر انسداد تجاوزات کی ریکوری جو بند ہو کر رہ گئی تھی اب شروع ہو رہی ہے۔ اورنگی ٹاون پروجیکٹ نے بھی اس پر دو روزقبل کام شروع کردیا ہے اور اس سے بہتری آنے کے امکانات ہیں۔ لیکن بلدیہ کراچی کو ترقی کے سفر پر جانے کے لئے نئے ٹیکس احداف بڑھانے ہوں گے۔ شہر میں ایک ہی مرتبہ بننے والے فلیٹس جنہیں یونین ماہانہ مینٹینس لینے کے باوجود مینٹین نہیں کرتی۔ شہر کی خوبصورتی بھی خراب ہورہی ہوتی ہے۔ کالے پیلے اور پانی رستے فلیٹس منہ چڑھا رہے ہوتے ہیں انہیں کے ایم سی ہر یونین کو جرمانے کرکے اور معاہدہ کرکے پابند کرے کہ وہ رنگ و روغن کرانے کے علاوہ مینٹینس کریں گے۔ ہر ماہ ہر فلیٹ کا باقاعدہ میونسپل یوٹیلیٹی بل ادا کریں گے تو خاطر خواہ آمدنی اور شہر کی خوبصورتی دونوں کام ہوجائیں گے۔ اسی طرح فوری ایک قرارداد منظور کرکے جس کی پاور ایڈمنسٹریٹر کراچی کے پاس ہے کیبل کی مد میں انتہائی کم صرف 50روپے کا فی گھر ٹیکس منظور کرکے آمدنی بڑھائی جاسکتی ہے۔ مذید براں (1) محکمہ چارجڈ پارکنگ کا بیشتر علاقہ ڈی ایم سی دیکھ رہی ہیں اس لئے ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈپٹی کمشنر اور ڈی ایم سیز کو ہدایت کریں کہ بلدیہ عظمی کراچی چارجڈ پارکنگ کریگی مکمل کنٹرول حاصل کیا جائے۔اس کے نتیجے میں ریکوری بہتر ہوجائے گی۔ اسس سلسلے میں کے ایم سی افسران نے بھی کوششیں شروع کی ہیں۔ جس میں جمیل فاروقی ویٹرنری میں، طارق صدیقی ڈائریکٹر لینڈ نے ٹھوس کوششیں کیں اور ڈیڈ کیسوں کو زندہ کرکے شاندار ریونیو اور کے ایم سی وسائل کو موجودہ ریٹس کے مطابق کرنے کی کوشش شروع کی ہے جو خوش آئند ہے اور اس میں انکی عملی کاوش نظر آتی ہے۔ کے ایم سی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن نے بھی اس پر کام کیا ہے۔ جس میں ریونیو میں اضافے کے ساتھ ساتھ افسران و ملازمین کے لئے بھی بہتر تجاویز سامنے لائی گئی ہیں۔ جمیل فاروقی، بلال منظر، علی حسن ساجد،شمس الدین، محمد رضوان خان و دیگر نے یہ تجاویز مرتب کیں جو ادارے کے لئے بہترین ثمرات کا سبب بن سکتی ہیں۔ وہ تجاویز دیج ذیل ہیں۔ (1) محکمہ چارجڈ پارکنگ کا بیشتر علاقہ ڈی ایم سی دیکھ رہی ہیں اس لئے ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈپٹی کمشنر اور ڈی ایم سیز کو ہدایت کریں کہ بلدیہ عظمی کراچی چارجڈ پارکنگ کریگی مکمل کنٹرول حاصل کیا جائے۔اس کے نتیجے میں ریکوری بہتر ہوجائے گی۔ اس پر عمل شروع ہوگیا ہے جس کے لئے سینٗر ڈائریکٹر بلال منظر کی کاوشیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ (2) محکمہ میونسپل یوٹیلیٹی چارجز کے بل ڈور ٹو ڈور بھیجے جائیں۔ اس سے ایک دم کروڑوں روپے کی ریکوری میں اضافہ ہوگا۔اسے یقینی بنایا جائے۔(2) محکمہ میونسپل یوٹیلیٹی چارجز کے بل ڈور ٹو ڈور بھیجے جائیں۔ اس سے ایک دم کروڑوں روپے کی ریکوری میں اضافہ ہوگا۔اسے یقینی بنایا جائے۔ (3) لینڈ ڈپارٹمنٹ کے ہاکس بے /کیماڑی بس اسٹینڈ1تا6گیٹ کی چنگی اور دکانوں کی الاٹمنٹ کی جائے انہیں لیز کیا جائے،ریٹ انتہائی کم ہیں ریوائز کئے جائیں، جو خاطر خواہ آمدنی میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ (4) کے ایم سی لینڈ پر قابض افراد سے قبضہ خالی کرایا جائے۔ واگزار لینڈ کو کمرشل بنیادوں پر 10سال کے لئے رینٹ پر دیا جائے۔(5) بچت بازاروں کے ریٹس ریوائز کئے جائیں۔بچت بازاروں کی موجودہ لینڈ کی بنیاد پر رجسٹریشن کی جائے اور آکشن کے ذریعے بازار دیئے جائیں۔ اس سے پورے سال بچت بازار ادارے کے کنٹرول میں رہیں گے۔جہاں ہفتے میں ایک بار بازار لگتا ہے۔ تو سامان فوری ہٹا لیا جائے اگر سامان نہ ہٹایا جائے تو جب تک میدان خالی نہ ہو۔ اسکا رینٹ لیا جائے۔ (6) بلدیہ عظمی کراچی کی ہیلپ لائن 1339کو فعال کیا جائے۔میونسپل سروسز کی معلومات، ریٹائرڈ ملازمین اپنی پنشن کی معلومات اور شکایات کا اندراج کراسکیں۔ محکمہ فنانس اس کی نگرانی و ذمہ داری لے۔ (7) ویٹرینری ڈپارٹمنٹ میں ٹیکنیکل ڈاکٹر کی تعیناتی کی جائے۔(8) سینئر ڈائریکٹر کووآرڈینینشن ایڈمنسٹریٹر / میئر کے بجائے 5یا6رکنی گریڈ 18اور19پر مشتمل ایڈوائزری کمیٹی بنائی جائے۔ جس میں سینئر اور تجربہ کار افسران ہوں۔ یہ مانیٹرنگ اور محکموں کی کارکردگی پر نظر اور بالخصوص ریکوریز پر نظر رکھے۔ ریونیو ٹارگٹ پورا نہ کرنے والے افسران کو اس کمیٹی کی ریکومینڈیشن پر ہٹادیا جائے۔ یہ کمیٹی ایڈمنسٹریٹر کی مدد و معاونت اور کے ایم سی کی کارکردگی کو بڑھانے کے لئے ہوگی جس کے مذید TORایڈمنسٹریٹر تفویض کرسکتے ہیں۔9) (۔کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس میں موجود شادی ہال، لیگل ایڈوائزر کے ذریعے کلیئر کرائے جائیں تو ایک بڑی آمدنی کا ذریعہ ہونگے۔(10)۔ کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس میں جگہ موجود ہے جسے کلیئر کراکے یہاں ملازمین کے لئے فلیٹس بنائے جا سکتے ہیں جو کے ایم سی کے ریونیو میں اضافہ کا سب ہوں گے۔ ۔ اگر کے ایم سی کے پاس فنڈز کی کمی ہے تو پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ سے یہ کام ہوسکتا ہے۔۔ اورنگ آباد (11)۔سائٹ کمرشل ایریا میں کے ایم سی کی زمین ہے جس پر فیکٹریز قائم ہیں۔ جن سے کرایہ اور دیگر واجبات نہیں لئے جا رہے۔اس پر توجہ سے بڑی آمدنی کے ایم سی حاصل کرسکتی ہے۔ (12)۔ اورنگی ٹاؤن میں 140ملین کے واجبات پی ٹی سی ایل، ڈی ایم سی ویسٹ، پولیس اسٹیشن،، ہیلتھ پر واجبات ہیں۔ پی ٹی سی ایل کا Suitفائل ہے۔ بقیہ واجبات وصول کرنے کے لئے لیگل ڈپارٹمنٹ اور ایڈمنسٹریٹر کی سطح پر ایکشن کی ضرورت ہے۔ (13)۔ کے ایم سی کی زمینوں پر کے الیکٹرک کے سب اسٹیشن ہیں۔ اورنگی میں 12اسٹیشن پر کے الیکٹرک ماہانہ کرایہ دینے پر راضی ہوگیا تھا۔۔ اس کی فائل ایم سی آفس میں ڈمپ ہوگئی۔ اس پر کاروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اورنگی کو ادائیگی کردی گئی تو پورے کراچی سے کرایہ لیا جا سکے گا۔ (14)۔ کے ایم سی کی خالی زمینوں کو آکشن کرکے بھاری ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح ایڈمنسٹریٹر صاحب نے ہاکس بے ہٹس پر ایکشن لیا اسی طرح لینڈ پر بھی خصوصی ایکشن کی ضرورت ہے۔ کئی آکشن منسوخ ہوگئے تھے۔ جنکی وجہ سیاسی معاملات تھے وہ اب کئے جائیں۔ کروڑوں روپے فوری کے ایم سی کو مل جائیں گے۔ (15)۔ اورنگی میں کئی زمینیں واگزار کرائیں۔ انہیں نئی پالیسی مارکیٹ ریٹ کے
مطابق قانونی طریقے سے کروڑوں روپے کی آمدنی کے ایم سی کو ہوگی۔ 16)) ۔کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز اسپتال کی انتظامی و اسٹاف پر خاص توجہ دی جائے۔ اس ادارے کو منافع بخش بنانے کے لئے کے ایم سی ریسورسز میں اضافہ کیا جائے تاکہ یہ ادارہ مالی بحران کا شکار نہ ہو۔ (17) شہر کراچی کی مارکیٹوں میں مضر صحت گوشت بغیر صفائی کے بل رہا ہے جس میں غیر قانونی ذبیح کٹے کا گوشت وغیرہ شامل ہے بک رہا ہے۔ اسکے لئے ریگولر ٹیم بنا کر چھاپے مارے جائیں موقع پر چالان کئے جائیں اور ملوث افراد کی گرفتاری بھی ہو۔ اس سے ادارے کا امیج بھی بنے گا اور ریکوری میں بھی اضافہ ہوگا۔(18) چڑیا گھر/ میوزیم / مچھلی گھر/ دیگر کی حالت زار بہتر کرکے عوامی تفریحات میں اضافہ کیا جائے۔ اسکی ٹکٹنگ سے ریونیو میں اضافہ ہوگا۔چڑیا گھر، سفاری پارک و دیگر میں کھانے پینے کے اسٹالز کو مارکیٹ ریٹس پر نیلام کرکے دیا جائے۔ریونیو میں واضح فرق آئے گا۔(19) وومن اسپورٹس کمپلیکس گلشن اقبال کی ممبر شپ کی فیس ریوائزکی جائے اور نئی ممبر شپ میں اضافہ کیا جائے۔ر۔یونیو میں اضافہ ہوگا۔(20) سفاری پارک میں 10سالہ لیزپرنئے الیکٹرانکس جھولے لگائے جائیں۔ عوام کے شوق میں اضافہ ہوگا۔ ساتھ میں اوپن سینما گھر پرائیوٹ کمپنی کو دیا جائے۔ اسسے واضح ریکوری بڑھے گی اور وزیٹرز کی تعداد میں خوشگوار اضافہ ہوگا۔ (21) انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ، نائٹ ہوٹلنگ اور تمام چالان وصول کرے جو SLGA2013میں اسے دیئے گئے ہیں جنہیں سابق میونسپل کمشنر نے بند کرکے کروڑوں کا نقصان کے ایم سی کو دیا۔باہر رکھے جنریٹرز اور دیگر کی فیس چالان وصول ئے جائیں۔ (22) ٖفوڈ کنٹرول ڈپارٹمنٹ کو فعال کیا جائے۔ فوڈ کوالٹی کنٹرول انسپکٹرز کو فعال کیا جائے۔ کے ایم سی کی ٹیسٹنگ لیبارٹری سے استفادہ کیا جائے۔غیر معیاری دودھ، چائے کی پتی، غیر معیاری مصالحہ جات، پینے کے پانی اور کی ٹیسٹنگ کی جائے۔محکمہ کو فعال کرکے چھاپہ مار ٹیم بنائی جائے۔ چالان کئے جائیں۔ فوڈ ٹیسٹنگ کے لئے جدید آلات اور ماہر پبلک انا لسٹ ہو جو اسی وقت فوڈ ٹیسٹ کرے اوراسی وقت چالان کرے یا سرٹیفیکٹ دے۔ اس سے امیج بھی بحال ہوگا اور ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا۔ مستند ڈاکٹر کو محکمہ کا سربراہ مقرر کیا جائے۔ محکمہ اپنی ایس او پیز اور ٹی او آر
کے مطابق فعال کیا جائے۔ (23) ٹریڈ لائسنس کا عملہ غیر فعال ہے۔سن شیڈ اور دکانوں پر لائسنس لاگو کیا جائے۔اس سے پورے شہر سے ریونیو حاصل ہوگا۔(24) کچی آبادیوں اور پلانڈ ایریازPlanned Areas کی لیز، موٹیشن کے ریٹس ریوائز کئے جائیں۔ اس سے خاطر خواہ آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ جس طرح کچی آبادی میں بجلی،پانی،گیس کے لئے این او سی لیتے ہیں۔ اس پر معمولی ٹیکس لیا جاتاہے۔ اس پر بھاری ٹیکس لگایا جائے جس سے آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ 25۔ بلدیہ عظمی کراچی Nominal قسم کے نئے ٹیکس لگائے۔ جس میں کیبل۔ انٹرنیٹ،پر ایک مختصر سی فیس رکھی جائے۔ نئی ونڈوز کھولی جائیں۔ دودوھ فروش۔ مرغی فروش اور بہت سے ایسے کاروبار ہیں جو شہر میں ہو رہے ہیں۔ اس پر مکمل سروے کے بعد ایک چالان امپوز کیا جائے۔ کروڑوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ اسکے لئے ای اینڈ آئی پی کے محکمے کو empower کرکے اکنامسٹ طرز کے افسر کی تعیناتی کی جائے۔ متاثرہ فیملی کو گریڈ کی بنیاد پر امدادی رقم اور اسکی اولاد کو فوری نوکری کی فراہمی اور دیگر سہولیات بہم دی جائے۔ اسکے لئے کونسل قرارداد منظور کرکے حکومت سندھ سے منظوری لی جائے۔ کے ایم سی کے ملازمین کو بھی Incentiveدیئے جائیں۔ جس میں پلاٹ،وغیرہ شامل ہوں۔ 25۔ سندھ حکومت کا اجراء کیا گیا آرڈر ٹائم اسکیل کو بھی منظور کیا جائے۔ ۔ کے ایم سی ملازمین و افسران میں ترقیوں کے حوالے سے انکا استحصال ختم کیا جائے۔26 ۔جو ملازمین 10سال سے 30سال تک کسی ترقی کو نہیں پاسکے اور مروجہ قوانین پر بھی پورے اترتے ہیں انہیں اگلے گریڈ میں نترقی دینے کے حوالے سے بھی قرارداد منظور کرکے حکومت سندھ کو بھیجی جائے تاکہ وہ حق حاصل کرسکیں۔اسکے لئے فارمولا بنا کر دیا جائے۔بالخصوص ایسے افسران و ملازمین جو ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں۔ اس پر امیج کمیٹی مکمل سفارشات دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ 27۔ کے ایم سی افسران اور ملازمین کے بچوں کو سی ایس ایس کی تیاری کرائی جائے۔ سن / ڈاٹر کوٹہ پر سختی سے عمل کیا جائے۔ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ بلدیہ کراچی کے قابل اور مستعد ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد اور میٹروپولیٹن کمشنر سید افضل زیدی، افسران اور کے ایم سی افسران ایسوسی ایشن ترقی کے اس سفر کو تیز کرنے کے علاوہ بلدیہ کراچی کو معتبر ادارہ بھی بنادیں گے جو نیک شگون ہے۔

]]>
https://intv.pk/?feed=rss2&p=14419 0