گورنر سندھ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کراچی میں کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں سے دل جیت لئے

کے ایم سی امیج کی اصل بہتری کا آغاز

گورنر سندھ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کراچی میں کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں سے دل جیت لئے

وزیر اعلی سندھ کی بھی ثقافتی سرگرمیوں میں دلچسپی

کے ایم سی کے ہیروز میں ڈاکٹر سیف الرحمان قابل ذکر۔

پہلی مرتبہ افسران اور کھلاڑیوں کی خصوصی کارکردگی۔۔


خصوصی کالم: رضوان احمد فکری

کراچی بین الاقوامی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ منی پاکستان ہے۔ اس شہر کی ہر شے کی اہمیت ہے وہ سیاست ہو۔ سمندر ہو، مزار قائد اعظم ہو، عجائب گھر ہو، اسکی تاریخی عمارات ہوں یا اسکے ادارے ہوں۔ ان ہی میں سے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن جو پاکستان بننے سے پہلے میونسپل کمیٹی کراچی تھا۔ تاریخی ورثہ اور کراچی کا سب سے اہم ادارہ ہے۔ اس ادارے کی تقسیم در تقسیم نے اسکی ہیئت اور اختیارات کی حالت ضرور بدلی ہے لیکن اسکی اہمیت سے کوئی انکاری نہیں۔ 2001میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ بناتو کراچی کو چار چاند لگ گئے۔ ہر ادارے کی ترقی ہوئی اور کراچی کی مثالیں دنیا بھر میں دی جانے لگیں لیکن اس شہر کو ایسی بری نظر لگی کہ 2010میں ساری ترقی عدم توجہی اور انفرا اسٹرکچر کو برقرار نہ رکھنے نا اہل اور سیاسی زہن رکھنے والے سرکاری ایڈمنسٹریٹرز نے ان اداروں کو تباہ کرکے کراچی کو گریٹر کراچی میگا پولیٹن جیسے اسٹیٹس سے کھنڈرات اور کچرے کا شہر بنا دیا۔ جسکی ذمہ دار حکومتیں اور انکے اتحادی آج بھی اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ 2016سے 2020تک منتخب قیادت بھی کراچی کو نہیں بدل سکی اور اختیارات کا واویلا کرتے ہوئے رخصت ہوگئی۔ مرتضی وہاب کی ایڈمنسٹریٹر تقرری ہونے کے بعد 14ماہ میں ریکارڈ کام ہوئے۔ سرکاری ایڈمنسٹریٹرز میں بریگیڈیئر عبدالحق نے بہت کام کیا اور کے ایم سی کو آکٹرائے چھن جانے کے باوجود مستحکم کیا۔سیاسی ایدمنسٹریٹرز میں فہیم زمان خان نے تاریخی کام کیا۔ کراچی میں پل پر پل بنانے کا آغاز انہی کے دور میں ہوا کیونکہ وہ شہید وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے بہت قریب تھے اس لئے فنڈز لانا مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن کراچی میں مائی کلاچی بائی پاس، قائد عوام فلائی اوور، اورنگی کاٹیج انڈسٹریز، بلدیہ، لانڈھی کاٹیج انڈسٹریز بھی اسی دور میں ہوئیں۔ فیضی رحمین آرٹ گیلری، کلچر اور سوشل ویلفیئر کے بہت کام ہوئے وومن اسپورٹس کلب اور کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس بھی انہی یادگاروں میں سے ہے۔ اسوقت آرٹس کونسل سادہ اور بہت عام سی تھی۔ احمد شاہ فہیم زمان کی ٹیم کا حصہ بنے تو آرٹس کونسل کو سیف الرحمان گرامی اور احمد شاہ نے نئی شکل دی۔ کے ایم سی سے بہت سے محکمہ چھن جانے کے بعد اور کے ایم سی کے بیڈ امیج بننے کے بعد یہ امید تقریبا ختم ہو چلی تھی کہ کے ایم سی کا کوئی گڈ امیج بنے گا۔ پنشنرز اور ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات اور پنشن کی ادائیگی کے لئے رقوم نہیں تھیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے تو کے ایم سی کے Assetsتک بیچنے کی ہدایت دے دی تھی۔ لیکن ایسی صورتحال میں جبکہ تنخواہیں دو دو ماہ میں ملتی تھیں۔ وزیر اعلی سندھ نے خصوصی گرانٹ چھ ماہ کی جاری کرکے کے ایم سی کو روٹین تنخواہوں کی ادائیگی کرائی۔ مرتضی وہاب کی تقرری کے بعد سے سسٹم بہتر ہوا اور انہوں نے سابق میئر کے دور کی بڑھی ہوئی تنخواہیں جو کے ایم سی ملازمین کو نہیں ملی تھیں ادا کرائیں۔ سات تاریخ تک تنخواہیں مل جاتی ہیں۔ جسکا کے ایم سی میں تصور نہیں تھا۔ مرتضہ وہاب نامساعد حالات میں آئے اور سیسی ایدمنسٹریٹر ہونے کے باوجود تاریخی کام کرکے مثال بن کر رخصت ہوگئے۔ لیکن انکی جگہ جس سرکاری ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر سیف الرحمان کی تقرری ہوئی۔ وہ کے ایم سی کی نبض نبض سے واقف تھے۔ با صلاحیت اور ادارے کے ساتھ ساتھ کراچی کی ان باریکیوں سے بھی واقف ہیں جسکی شہر کو ضرورت تھی۔ انکی ڈائنامک انٹری نے کام چور افسران کی تو ویسے ہی نیند اڑا دی۔ شہر کے لئے دوسرا کام اچھا یہ ہوا کہ اناؤں کے سارے بت توڑ کر گورنر سندھ کے ایم سی اور کراچی کی ترقی کے لئے ان کے ساتھ جڑ گئے۔ پہلے ہی اجلاس میں ڈاکٹر سیف الرحمان نے کارکردگی کا والیوم برھانے والی میٹنگ کی اور شہر کے کونے کونے جاکر دستیاب وسائل اور فنڈز کے درست استعمال کے لئے کام شروع کردیا۔ شہر کے بے ہنگم حالات کو درست کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے مرتضی وہاب اور وزیر اعلی سندھ کی بھی تعریف کی۔ انہیں نہ نیند کی پرواہ تھی نہ وقت کی وہ دن رات علاقوں سے تجاوزات، غیر قانونی تعمیرات، غیر قانونیہ ہائیڈرینٹس، زوو، سفاری پارک، چائنا گراؤنڈ، کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس، سڑکوں فٹ پاتھوں، پارکوں اور شہر کی ضروریات کے مطابق ہر کام میں جتے نظر آئے انکے

شانہ بشانہ گورنر سندھ بھی تھے۔ انکے کاموں کی پزیرائی وزیر بلدیات سندھ بھی اور حکومت سندھ بھی کرتی نظر آئی اور ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کراچی میں اپنے نام کام اور باصلاحیت ہونے سے منفرد حیثیت حاصل کی۔ الہ دین پارک جسکا کوئی پرسان حال نہیں تھا اس میں کام شروع ہوا۔ بند منصوبوں میں ہل جل پیدا ہوئی۔ اسیدوران بلدیاتی انتخابات بھی ہوگئے۔ ڈاکٹر سیف الرحمان نے طبی میدان کے ساتھ ساتھ مثبت سرگرمیوں کے لئے بھی کام شروع کئے۔ اسوقت وہ کراچی میں اسپورٹس کے میدان میں متحرک ہیں کراچی گرینڈ اسپورٹس گیمز جس میں 44سے زائد گیمز ہو رہے ہیں انکا باقاعدہ افتتاح ہوچکا ہے۔ ایک اچھی روایت یہ بھی ڈالی گئی کہ مزار قائد سے حاضری، ریٹ چڑھانے، وہاں سے مشعل روشن کرنے اور خصوصی افسران اور کھلاڑیوں کے ہمراہ،مزار قائد سے اسپورٹس کمپلیکس کشمیر روڈ تک واک بھی منعقد کی گئی۔ مشعل روشن کی گئی جو کھیل شروع ہونے سے اختتام تک روشن رہے گی۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے افتتاح کیا اور شاندار آتشبازی بھی کی گئی۔ ٹمام ٹیموں کا تعارف اور میچوں کا آغاز بھی ہوا۔ کے ایم سی کی تاریخ میں ایسا ایونٹ کبھی نہیں ہوا۔ اس میں شعبہ اسپورٹس کے سینئر ڈائریکٹر سیف عباس حسنی کا بھی شاندار کردار ہے لیکن یہ ایونٹ ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سیف اور گورنر سندھ کی مرہون منت منعقد ہوا۔ حکومت سندھ نے بھی اسکی بھرپور معاونت کی ہے۔ جبکہ اتنے بڑے ایونٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کے ایم سی کے پیسے خرچ نہیں کئے گئے اسپانسرز اور پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر میگا ایونٹ کیا جا رہا ہے۔ بلدیہ عظمی کراچی کے محکموں کے تمام ہیڈ آف ڈپارٹمنٹس کسی نہ کسی کھیل کے انچارج ہیں اور دیگر افسران کی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ بلدیہ کراچی نے شائقین کھیل کو ایسا تحفہ دیا ہے کہ جسکی کوئی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ طالب علم، وقت کا ضیاع کرنے والے نوجوان اور کراچی میں خوف و دہشت کی فضاء سے نکل کر کراچی کا امیج بلڈ کرنے پر ڈاکٹر سیف الرحمان پرائڈ آف پرفارمنس کے حق دار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی بہترین قائدانہ صاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔ 500سے زائد کھلاڑی مختلف گیمز میں حصہ لے رہے ہیں۔ کراچی گیمز سے نئے ٹیلنٹ کا بھی وجود سامنے آئے گا۔ یہ کھلاڑی ملک کا نام روشن کریں گے۔ ہاکی جو ہمارا قومی کھیل ہے اور اس پر پاکستان کی دسترس رہی ہے دوبارہ ٹیلنٹ کے ساتھ زندہ ہورہا ہے۔ کراچی گیمز کا آغاز اولمپکس گیمز کی طرز پر کیا گیا۔ جو بین الاقوامی حیثیت بھی جلد حاصل کرلے گا۔ 3مارچ سے شروع ہونے والا کھیلوں کا یہ میلہ 12مارچ تک جاری رہے گا۔کراچی گیمز میں 5ہزار سے زائد کھلاڑی اور ایتھلیٹکس 44مختلف انڈور اور آؤٹ ڈور گیمز میں حصہ لے رہے ہیں
اس ایونٹ کی پزیرائی کے لئے لیجنڈ کھلاڑی حنیف خان، کرکٹر صادق محمد، شعیب محمد، توصیف احمد، جہانگیر خان، محمد یوسف اسنوکر، ایتھلیٹ نسیم حمید، علی سلمان، ہاشم ہادی، اصلاح الدین، فنکار شو بزنس کی شخصیات، سیاسی سماجی اور کتراچی اور ملک کے لئے گرانقدر خدمات انجام دینے والی شخصیات اس ایونٹ میں شرکت کر رہی ہیں۔ گورنر سندھ بھی اسکا مسلسل حصہ ہیں۔ جس سے کھلاڑیوں اور بلدیہ عظمی کے علاوہ کراچی کے عوام کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ روایتی کھیل، سائیکلنگ، دوڑوں کے مقابلے ہاکی، اسنوکر، رولر اسکیٹنگ، فٹ بال، کرکٹ، وہ کھیل جو بچپن میں کھیلے جاتے تھے۔ ان کی بھی انٹری نے رونق بخش دی ہے۔ میونسپل کمشنر سید شجاعت حسین نے ہفتہ چار فروی کو،مختلف کھیلوں میں شریک کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ڈاکٹر سیف الرحمان کے لئے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ جن کی طرح کام کرتے ہیں۔ ایکٹو ہر ایونٹ میں موجود افسران و کھلاڑیوں کے شانہ بشانہ، کے ایم سی کا نہ صرف امیج بلڈ ہوا ہے بلکہ اتحاد، محبت اور سب کو یکجا کرنے کا بہترین کام بھی ہوگیا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کے ایم سی امیج کی اصل بہتری کا آغازہو گیا ہے۔ گورنر سندھ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کراچی میں کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں سے دل جیت لئے ہیں جبکہ وزیر اعلی سندھ کی بھی ثقافتی سرگرمیوں میں دلچسپی بھی خوش آئند ہے۔ کے ایم سی کے ہیروز میں ڈاکٹر سیف الرحمان قابل ذکرہو چکے ہیں جبکہ پہلی مرتبہ افسران اور کھلاڑیوں کی خصوصی کارکردگی اور انہیں بے پناہ عزت بھی ملی ہے۔

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

Notice: Undefined variable: aria_req in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/comments.php on line 83

Notice: Undefined variable: aria_req in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/comments.php on line 89

اپنا تبصرہ بھیجیں