پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر آنے کے بہت کم امکانات ہیں

کورونا وائرس

کورونا وائرس کے حوالے سے کی گئی نئی تحقیق کے مطابق کراچی میں خون کی بیماریوں کا علاج کرنے والے صف اول کے ادارے نے کہا کہ ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر آنے کے بہت کم امکانات ہیں جس سے کاروبار کھولنے کی حکومتی پالیسی کو مزید تقویت ملی ہے۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیزز کی جانب سے مئی سے جولائی تک ایک اسٹڈی کی گئی جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس جرنل برائے پبلک ہیلتھ کی جانب سے شائع کیا گیا۔

کورونا وائرس کے حوالے سے یہ اسٹڈی ڈاکٹر ثمرین زیدی کی زیر قیادت مائیکرو بائیولوجسٹ، ہیماٹولوجسٹ اور پیتھالوجسٹ کی جانب سے یہ اسٹڈی کی گئی جس میں شعبہ،، عوام اور صنعتی ورکز پر مشتمل 1700 افراد کو اسٹڈی کا حصہ بنایا گیا۔

ان شرکا میں 18 سے 60 سال کی عمر کے درمیان کے مرد و خواتین دونوں شامل تھے۔

اس تحقیق میں اینٹی باڈی اجزا کی سطح کا مختلف شہریوں میں جائزہ لیا گیا تاکہ معاشرے میں وائرس کے پھیلاؤ کو جانچا جا سکے اور اس سے اندازہ ہوا کہ کراچی کے 36فیصد شہریوں میں پہلے ہی وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس تحقیق کے ذریعے کراچی میں محکمہ صحت کے ساتھ ساتھ عوام کے جسم میں قوت مدافعت کا جائزہ لیا گیا اور کُل قوت مدافعت 36 فیصد تھی اور سب سے زیادہ مثبت مدافعت 50.50 فیصد کے ساتھ صنعتی ملازمین کی رہی جبکہ سب سے کم مدافعت 13فیصد کے ساتھ محکمہ صحت کے عملے کی تھی۔

اس کے علاوہ خود عطیہ کرنے اور اینٹی باڈی ٹیسٹ کے لیے آنے والے افراد میں سے 34 فیصد کی قوت مدافعت رہی۔

سیرولوجی ٹیسٹ کے ذریعے کسی مخصوص آبادی میں ایک وقت میں بیماری کے حوالے سے قوت مدافعت کا پتہ لگایا جاتا ہے اور اس کی شرح امریکا میں 1.9 سے 6.9 فیصد ہے جو پاکستان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

سوئٹزرلینڈ اور اسپین میں اس کی شرح بالترتیب 10.8 اور 5 فیصد ہے۔

تحقیق یہ بات ثابت کرتی ہے کہ کراچی کی ایک تہائی آبادی کورونا وائرس کے خلاف مدافعتی نظام پیدا کر چکی ہے لیکن یہ ابھی بھی درکار 60 سے 70فیصد سے کافی کم ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر بالفرض ہم آئندہ دو ماہ میں 60فیصد کی حد عبور کر لیتے ہیں تو حقیقت سے قریب تر ہوں گے تاہم اس بات کا انحصار اس پر ہو گا کہ مدافعتی نظام وقت کے ساتھ کم نہ ہو۔

ڈاکٹر ثمرین زیدی نے کہا کہ ہماری توقعات کے مطابق سیرو پری ویلینس کی شرح توقعات کے مطابق 60فیصد تک پہنچ چکا ہے اور ہم کیسز میں بتدریج کمی اور دیگر متعلقہ عوامل کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دوسری لہر آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔

البتہ انادولو ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ مفروضے بالآخر مفروضے ہی ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر ثمرین نے کہا کہ اس میں واحد حد یہ ہے کہ ہمارے اس تحقیق کا سائز کم ہے لہٰذا ہم حکومت کو تجویز پیش کرتے ہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر تحقیق کے نتائج کو ایک مرتبہ چیک کر لے۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیزز کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی نے ڈاکٹر ثمرین کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں عوام میں ایک قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے جو اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ ہمارے ہاں کورونا کی دوسری لہر آنے کے امکانات بہت کم ہے۔

ملک میں پلازما تھیراپی کے سرخیل ڈاکٹر نے مزید کہا کہ اس تحقیق کا ڈیٹا جولائی تک ہے، اب ہم ستمبر میں داخل ہو چکے ہیں اور تازہ اعدادوشمار اور ٹیسٹ کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ قوت مدافعت 60فیصد ہے۔

اسی طرح ملک کی ایک بڑی لیبارٹری کی جانب سے اسی طرح کی اسٹڈی کی گئی جس میں کہا گیا کہ ملک کے 33فیصد شعبہ صحت کے افراد کی 33 فیصد قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔

لیبارٹری نے تحقیق کے لیے ملک بھر میں 15ہزار ٹیسٹ کیے۔

ملک میں روزانہ رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد یومیہ 7ہزار سے کم ہو کر 400 تک آ گئی ہے جبکہ اب اموات کی تعداد میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

البتہ 17 ستمبر کو کیسز میں اضافہ دیکھا گیا اور 722 کیسز رپورٹ ہوئے جو گزشتہ ایک ماہ کے دوران ملک میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

حکومت اس وقت منی اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس میں مکمل گلیاں یا شاپنگ سینٹرز کے بجائے صرف مخصوص گھروں اور کام کی جگہوں کو بند کیا جا رہا ہے۔

ڈاکتر طاہر شمسی نے کہا کہ نئے اعدادوشمار اور تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس کی لہر آنے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن خبردار کیا کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم بے احتیاطی کریں کیونکہ وائرس اب بھی موجود ہے، ہم حفاظتی تدابیر نظر انداز کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اس وائرس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی بھی اس بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet