امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا بھر میں نسلی تعصب اور پولیس تشدد کے خلاف گزشتہ دو ہفتوں سے مظاہرے جاری ہیں تاہم اب نسل پرست برطانوی شہری بھی میدان میں آگئے۔
پولیس کی وارننگ کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین وسطی لندن میں جمع ہورہے ہیں تاکہ چرچل کے مجسمے کو گرنے سے بچایا جاسکے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ اسکوائر کے سامنے پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہلکی جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ مظاہرین یہ نعرے بازی کررہے تھے کہ ’ہم مجسموں کی انسداد نسل پرستی کے کارکنوں سے حفاظت کریں گے‘۔
دائیں بازو کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ہماری مظاہرین لندن آئے ہیں تاکہ برطانوی تاریخ کی نشانیوں کو بچاسکیں اور ہم اپنی یادگاروں کے محافظ ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز نسل پرستوں کی جانب سے مشہور سیاہ فام شاعر، ڈراما نگار اور اداکار الفریڈ فیجن کے مجسمے کو گلادینے والا مادہ (تیزاب) ڈال کر خراب کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جس کے خلاف پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ الفریڈ پہلی سیاہ فام شخصیت ہیں جن کے اعزاز میں مجسمہ بناکر لگایا گیا تھا لیکن جمعرات کو پولیس کو اطلاع ملی کہ کچھ نامعلوم شرپسندوں نے مجسمے کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔
خیال رہے کہ امریکا کے بعد برطانیہ میں بھی ایسے مجسمے اور یادگاریں ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس سے سفید فام نسلی امیتاز کو بڑھاوا ملتا ہے اور غلاموں کی تجارت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔
مظاہرین کی جانب سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے احاطے سے سیسل رہوڈز کا مجسمہ ہٹایا جائے، آکسفورڈ یونیورسٹی سے مجسمہ ہٹانے کیلئے آن لائن پٹیشن پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد نے دستخط کیے ہیں۔