اظہر علی کا کہنا تھا کہ انگلینڈ میں پاکستان کا ریکارڈ حوصلہ افزا ہے لیکن اس بار کوشش ہوگی کہ سیریز ڈرا نہیں کریں، بلکہ جیت کر آئیں۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تین ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز پانچ اگست سے شروع ہوگی لیکن پاکستان کرکٹ ٹیم سیریز کے آغاز سے پانچ ہفتہ قبل ہی انگلینڈ پہنچ جائے گی تاکہ وہاں چودہ روز قرنطینہ کے بعد سیریز سے قبل بائیو سیکیور ماحول میں سیریز کی تیاری بھی کرسکے۔
سیریز کے دوران کرکٹرز کو سخت پروٹوکولز فالو کرنا ہوں گے جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کی نقل و حرکت صرف اسٹیڈیم اور ہوٹلز تک محدود رہے گی، گراؤنڈ پر تماشائی بھی نہیں ہوں گے تاہم اظہر علی کہتے ہیں کہ پاکستانی کرکٹرز کیلئے یہ کچھ نیا نہیں، ہاں مگر صورتحال اس بار مختلف ہے اور ہر کسی کو احتیاطی تدابیر فالو کرنا ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کرکٹرز نے بغیر تماشائیوں کے دبئی میں بہت کرکٹ کھیلی، جب ملک میں کرکٹ واپس آئی تو شروع میں ہوٹل اور گراؤنڈ تک ہی محدود رہے۔ ایک وقت تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ پاکستان کے ٹور میں پلیئرز گراؤنڈ اور ہوٹل تک محدود رہیں گے اور اب ایسی ہی صورتحال پوری دنیا میں ہوگئی ہے۔تاہم نئے ایس او پیز کی پابندی پاکستانی کرکٹرز کیلئے نئی ضرور ہوگی۔
اظہر علی کہتے ہیں کہ جن چیزوں کو بچپن سے کرتے آرہے ہیں اس کو نہ کرنا مشکل ضرور ہے لیکن گزشتہ دو ماہ کے دوران ہر کوئی ایس او پی کی پابندی کا عادی بن چکا ہے اس لیے ہر کسی کے ذہن میں احتیاطی تدابیر موجود ہیں۔
آئی سی سی کی نئی گائیڈ لائنز میں پلیئرز نہ تو گیند کو چمکانے کیلئے تھوک کا استعمال کرسکیں گے اور نہ ہی کامیابی پر تالی ماریں گے اور نہ ہی گلے مل سکیں گے تاہم اظہر علی کے مطابق انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی سیریز میں پاکستانی کرکٹرز کو یہ اندازہ لگانے کا موقع مل جائے گا کہ ان ساری گائیڈ لائنز میں کرکٹ کس طرح ہورہی ہے۔
اظر علی کا یہ بھی ماننا ہے کہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی سیریز جہاں پاکستان کو چیزوں کے مشاہدے کا موقع دے گی وہیں وہ انگلش پلیئرز کو ان تمام صورتحال سے ایڈجسٹ ہونے کا موقع بھی دے دے گی جن کا ٹیموں کو سامنا ہوگا جو پاکستان کیلئے ایک ڈس ایڈوانٹج ہوسکتا ہے۔
ایک سوال پر پاکستان ٹیم کے کپتان نے کہا کہ قومی کرکٹرز سیریز کیلے کافی مثبت ہیں اور کرکٹ کے میدانوں میں واپسی کیلئے پر جوش، کرکٹ کی واپسی نہ صرف فینز بلکہ کرکٹرز کیلئے بھی ضروری ہے، مثبت بات یہ ہے کہ کھلاڑیوں کو طویل عرصہ کرکٹ سے دور نہیں رہنا پڑا کیوں کہ طویل عرصہ دوری میں کئی پلیئرز کے کیریئر کا اہم سال ضائع ہوسکتا تھا۔
تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے اظہر علی کا کہنا تھا کہ یہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہیں اور پاکستانی کرکٹرز اس سیریز میں قیمتی پوائنٹس حاصل کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔
اظہر علی کا کہنا تھا کہ طویل اسکواڈ اور ریڈ بال اسپیشلسٹ لے جانے کا مقصد ہی ہے کہ لمبے قیام کے دوران کوئی بھی مسئلہ ہوا تو فوری متبادل دستیاب ہو۔ قومی کپتان نے کہا کہ اس بار پاکستانی ٹیم سیریز ڈرا نہیں کرے گی بلکہ جیت کر واپس آے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حارث سہیل کی عدم موجودگی میں فواد عالم کا چانس بن سکتا ہے، فواد نے کافی لمبا انتظار کرلیا ، اس کے ٹیلنٹ پر کسی کو شک نہیں اور اگر ٹیم چھ بیٹسمینوں کے ساتھ میدان میں اترتی ہے تو فواد عالم کے فائنل الیون میں شامل ہونے کا چانس بن سکتا ہے۔
پاکستان کی جانب سے 78 ٹیسٹ میچز میں پانچ ہزار نو سو انیس رنز بنانے والے اظہر علی کا کہنا تھا کہ انگلینڈ سے سیریز میں ان کا ذاتی ہدف ہے کہ لمبا اسکور کریں، تین میچز کی سیریز میں کم از کم دو سنچریاں کرنے کی خواہش ہے اور امید ہے کہ ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کریں۔