جمہوریت اور ارباب اختیار کا طرز حکومت

تحریر:فرقان شکیل فاروقی
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام سے حکومت عوام کیلئے کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا آمریت کے برخلاف اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں: بلا واسطہ جمہوریت اور بالواسطہ جمہوریت بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن ہو دوسری عوام کے ذریعے عوام کی حکومت عوام کے لئے۔ لیکن افسوس پاکستان میں تین بڑی پارٹیاں پی پی اور ن لیگ ہی اقتدار میں آتی رہیں باریاں لگنے سے ملک خاندانی سیاست کا منظر پیش کر رہا تھاجمہوریت کی نام لیوا ان پارٹیوں میں بدترین ڈکٹیٹر شپ رہی اور انہوں نے کسی اور سیاسی پارٹی کو پنپنے کیلئے راستے ہموار نہ ہونے دئیے کسی بھی پارٹی میں پارٹی سربراہ۔ سربراہ کہنے کے بجائے پارٹی مالک کہنا زیادہ قرینِ انصاف ہے۔
اور تیسری بڑی پارٹی پی ٹی آئی سامنے آئی یہ وہ سیاسی پارٹی ہے جو پنپ ضرور گئی مگر آج تک اپنے جلسوں میں نظم و ضبظ نہیں رکھ سکی اب ان سے ملک میں جمہوریت کو برقرار رکھنے کی امید کیجارہی ہےجو پارٹیاں اپنی پارٹی کے اندر جمہوریت اور جمہوری روایات کو پروان نہیں چڑھاسکی وہ حکومت میں آکر بھی جمہوری نظام کو چلانے میں تاحال ناکام دکھائ دے رہی ہےملک کے موجودہ سربراہان جمہوریت کی بات کرتے ہے عوام بھوک سے مر رہی ہے جناب (کہاں ہے جمہوریت؟) ہسپتالوں میں لوگ مررہے ہےکہاں ہے جمہوریت روزمرہ مہنگایَ بڑھ رہی ہے کہاں ہے جمہوریت کیا جمہوریت اس کو کہتے ہے کہ پودینے جیسی معمولی سبزی خریدنا ملک کے باسیوں کے لئے مشکل مرحلہ بن چکا ہے
ہمارے بعض سیاسی پنڈت عوامی مینڈیٹ کو امرت دھارا یعنی ہر مرض کا علاج سمجھتے ہیں جبکہ خود انتخابی عمل مشکوک، ووٹر لسٹیں جعلی، انتخابی عملہ جانبدار ، انتخاب کا مقصد ذاتی منفعت اور شوق حکمرانی،شخصی بالا دستی ہو تو قومی مقاصد کا باوقار حصول کیونکر ممکن ہو سکتا ہے ۔ اگر یہ سارا عمل پوری طرح شفاف اور قابل قبول ہو بھی اور مقاصد بھی اچھے ہوں تب بھی مینڈیٹ مد مقابل کے مقابلے میں اقتدار کی کرسی تک پہنچانے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن کسی بھی صورت علم ، عقل ، سمجھ ، صلاحیت اور تجربے کا متبادل نہیں ہو سکتاجبکہ ریاست کوچلانے کے تقاضے یکسر مختلف ہیں ۔ خود لفظ مینڈیٹ کے ساتھ بھی انصاف نہیں کیا جاتا ۔ اصولی بلکہ عملی طور پر دفاع ، عدلیہ اور دوسرے اہم اداروں کو مینڈیٹ سے باہر رکھ کر یہ اصطلاح خوداپنا اصل مفہوم ہی برقرار نہیں رکھ سکتی ۔
جو پارٹیاں اپنی پارٹی کے اندر جمہوریت اور جمہوری روایات کو پروان نہیں چڑھاسکی وہ حکومت میں آکر کس طرح جمہوری نظام کو چلاسکتی ہے
جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعاً ناممکنات میں سے ہے۔ پھر قانون کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی۔ اس لیے جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی
جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کار فرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکین مملکت کا انتخاب درست اور شفاف ہو۔
امریکا میں جمہوریت نہیں ہے بلکہ امرا کی حکومت ہے جس طرح ماضی میں فرانس اور برطانوی سلطنتوں میں ہوا کرتی تھی۔ باقی لوگ محض محکوم ہیں اگرچہ انہیں شہری کہا جاتا ہے
اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں اس تصور کا دوبارہ احیا ہوا۔ اس وقت جمہوریت نے ایک منضبط شکل اختیار کی اور وہ جمہوریت وجود میں آئی جو آج موجود ہے۔ اسے لبرل ڈیموکریسی اور اردو میں “آزاد خیال جمہوریت” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جن مفکرین نے جمہوریت کی صورت گری کی اور جن کو آزاد خیال جمہوریت کا بانی سمجھا جاتا ہے وہ والٹیئر، مونٹیسکو اور روسو ہیں۔ یہ تینوں فرانس کے فلسفی ہیں، انہی کے افکار ونظریات کے ذریعہ جمہوریت وجود پزیر ہوئی ایسی جمہوریت جس میں فیصلے عوام کی امنگوں کے منافی ہوں جمہوریت نہیں کہلاتی البتہ اتنا ضرور ہوتا ہے کہ حائل مشکلات کو دور کرنے میں عوام کو اعتماد میں لیا جاتا ہے مگر موجودہ حکومت نے زیادہ کام کرنے کے بجائے لارے لپوں سے کام لے کر آج اپنے لئے مشکلات بڑھا لی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل پاکستان کو کہاں تک لے جاتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان مسلسل تجربات کی بھٹیوں سے گزرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا اور یہ بات ہر سطح پر جتنی جلدی سمجھ میں آجائے اتنا ہی بہترہوگا.

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

Notice: Undefined variable: aria_req in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/comments.php on line 83

Notice: Undefined variable: aria_req in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/comments.php on line 89

اپنا تبصرہ بھیجیں