جنوبی افریقی ٹیم کے کپتان کوئنٹن ڈی کوک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سب سے بڑا چیلنج یہاں کی کنڈیشنز کا اندازہ نہ ہونا ہے کیوں کہ ٹیم کے کھلاڑی پہلے پاکستان میں نہیں کھیلے تاہم کوچ مارک باؤچر پہلے پاکستان میں کھیل چکے ہیں تو ان سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہاں کس صورتحال کا سامنا…
پاکستان آمد کے بعد جنوبی افریقی کپتان نے پہلی مرتبہ میڈیا سے گفتگو کی، آن لائن گفتگو میں کوئنٹن ڈی کوک نے کہا کہ پاکستان سمیت کسی بھی ٹیم کو اس کے ہوم گراؤنڈ پر کھیلنا آسان نہیں ہوتا، جنوبی افریقی ٹیم کو اندازہ ہے کہ پاکستان اپنے گھر پر آسان حریف نہیں ہو گی اور یہ وہ ٹیم بالکل بھی نہیں ہوگی جو نیوزی لینڈ میں نظر آئی تھی۔
کوئن ڈی کوک نے کہا کہ بابر اعظم کی واپسی اور ہوم کنڈیشنز یقینی طور پر پاکستان کی اسٹرینتھ کو بڑھائیں گے۔
جنوبی افریقی ٹیم کے کپتان نے مزید کہا کہ مجھ سمیت اکثر کرکٹرز کو پاکستان کی کنڈیشنز کا اندازہ نہیں جو ان کے لیے چیلنج ہوگا تاہم ہیڈ کوچ مارک باؤچر یہاں پہلے مکمل ٹوورز کر چکے ہیں تو ان سے پوچھ رہے ہیں کہ یہاں کیسی کنڈیشنز ہوں گی۔
واضح رہے کہ جنوبی افریقا کی ٹیم 2007 کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان آئی ہے اس دوران جنوبی افریقی ٹیم میں شامل فاف ڈی پلیسی ورلڈ الیون اور پھر پی ایس ایل کے لیے پاکستان آچکے ہیں۔
کوئن ڈی کوک نے کہا کہ پاکستان آنے سے پہلے سیکیورٹی کے حوالے سے سوالات سب کے ذہنوں میں تھے لیکن پاکستان پہنچ کر انتظامات کو دیکھنے کے بعد ہر کوئی مطمئن ہے کہ کھلاڑیوں کی حفاظت کا بہترین انتظام کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرنطینہ کے دوران بھی پاکستان کرکٹ بورڈ نے جنوبی افریقی ٹیم کے لیے ٹریننگ کا بندوبست کیا ہے جو کافی حوصلہ افزا بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی اسکواڈ میں تین اسپنرز دیکھ کر یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ یہاں کس طرح کی وکٹیں مل سکتی ہیں اور اسکواڈ اس بات سے واقف ہے کہ پاکستانی وکٹوں پر پاکستان کے اسپنرز جنوبی افریقی بیٹسمینوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
کوئنٹن ڈی کوک نے کہا کہ پاکستانی اسکواڈ میں اکثر نئے کھلاڑی بھی شامل ہیں جن کی اسٹرینتھ دیکھنے کے لیے ٹیم میٹنگ میں وڈیوز کا جائزہ لیا جائے گا۔
جنوبی افریقی کپتان نے عزم ظاہر کیا کہ وہ بطور بیٹسمین زیادہ سے زیاد رنز کرنے کی کوشش کریں گے اور ٹیم میں شامل دیگر کھلاڑیوں کی بھی یہی کوشش ہو گی کہ وہ بڑا اسکور کریں۔
ایک سوال پر کوئنٹن ڈی کوک نے کہا کہ یہ سیریز دونوں ملکوں کے درمیان اہم مقابلہ ہے، تماشائیوں کا نہ ہونا افسوس کی بات ہے لیکن امید ہے مستقبل میں جب سیریز ہو گی تو اس وقت تماشائیوں کو آنے کی اجازت ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ بائیو سیکیور ببل کی زندگی بہت مشکل ہے اور اس کے ذہنوں پر منفی اثرات ہو سکتے ہیں تاہم کرکٹ کو جاری رکھنے کے لیے کھلاڑی ان حالات کا ڈٹ کر سامنا کررہے ہیں۔