حکومت وقت کی بے حسی قائم، پاکستان کی آبادی کم کرو؟

حکومت وقت کی بے حسی قائم،
پاکستان کی آبادی کم کرو؟ ایسے تو مریں گے نہیں تو ایسے مارو، دواؤں کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے دور کر دی گئیں؛

کراچی(رپورٹ: فرقان فاروقی)کوئی شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے درست کہا تھا ن لیگ کے ایک رہنما نے لیکن یہ ان پر بھی صادق آتا ہے کیونکہ اگر وہ شرم وحیا کا پیکر ہوتے تو آج پاکستانیوں کو یہ دن دیکھنا نصیب نہیں ہوتا کہ پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے دواؤں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے جس پر چیخنے چلانے کے سوا کچھ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے یہ کونسی عوام دوستی ہے کہ 94 ادویات جن کا تعلق بخار، امراض قلب، شوگر، ملیریا اور فلو سے ہے 262 فیصد جی ہاں 62 فیصد نہیں بلکہ 262 فیصد مہنگی کر دی گئیں ہیں یعنی جو گولی پہلے پانچ روپے میں دستیاب تھی اب تقریبا18 روپے پچاس پیسے میں دستیاب ہوگی دس گولیوں کا اسٹرپ پچاس روپے کے بجائے تقریبا 185 روپے میں ملے گا جبکہ دیگر انفیکشنز کی دوائیں بھی اسی اضافے سے ملیں گی دل کے مریض دل تھام کر ہی رکھیں کیونکہ اب جب وہ بازار دوائیں خریدنے جائیں گے تو ان کے دل کا حال اس حد تک خراب ہوسکتا ہے کہ وہ خدانخواستہ اسپتال ہی نہ پہنچ جائیں اس کردار پر حکومت کو سلام تسلیم تو پیش کئے جانے سے جارہا جو اپنی ہی عوام کو دواؤں کی خرید سے دور رکھ کر قبرستانوں میں جگہیں ہموار کرنے میں مصروف ہے کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ دوائیں شورٹیج کے بہانے کو جواز بنا کر جان بچانے والی ادویات کو مہنگا کیا جانا ناکامی تسلیم کئے جانے کے برابر ہے ڈرگس ریگولیٹری اتھارٹی نے من مانیوں کی بنیاد پر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور حکومت نے بھی پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کےاضافے کے بعد ادویات میں اضافے کو بھی معمول بنا کر پاکستانیوں کو زمین بوس کرنے کا ساتھ دیا ہے شہریوں کا کہنا ہے کہ دو سال سے زائد عرصہ گزر گیا لیکن ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ شاید گناہوں کی سزا کا وقت آگیا ہے مگر سزائیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں کرپشن کے خاتمے کا مشن لئے نئے پاکستان کی حکومت کرپٹ مافیا کے شکنجے میں مکمل طور پر پھنسی دکھائ دے رہی ہے اور ایسا ہی جاری رہا تو انجام گلستاں ویرانے کے سوا کچھ نہیں ہوگا اور ویرانے میں جنگل آباد ہوتے ہیں جہاں حکمرانی انسانوں کے بجائے جانوروں کی ہوتی ہے اب بھی وقت ہے حکومت ہوش کے ناخن لے اور عام عوام کو دیوار یا قبرستان پہنچانے کے بجائے ایسی حکمت عملی وضع کرے جو عام آدمی کو کسی حد تک سکون پہنچا سکے صرف دودھ کی ہی مثال لے لی جائے تو گزشتہ دو سالوں میں کراچی میں دودھ ستر روپے فی لیٹر سے 120 لیٹر تک جا پہنچا ہے جو عام استعمال کی چیز ہے پھر خود ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم مر نہیں رہے بلکہ دانستہ طور پر قبروں میں اتارے جارہے ہیں.

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں