ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ افتخار شہوانی کا بلدیہ عظمیٰ کراچی میں کم گریڈ کے افسران کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرنا سمجھ سے بالاتر ہے

کراچی(رپورٹ: فرقان فاروقی)ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی افتخار شلوانی، بلدیہ عظمی کراچی کے ساتھ کیا کرنا چاہ رہے ہیں سمجھ سے بالاتر دکھائی دے رہا ہے ایک جانب سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر اوپی ایس افسران کو ہٹانے کیلئے اقدامات کیلئے محکمہ بلدیات سندھ کی جانب سے کہا جا رہا ہے تو دوسری جانب کم گریڈ کے افسران کو اہم عہدوں پر فائز کرنے سمیت اہم عہدوں کے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت سے بلدیہ عظمی کراچی کے افسران میں بے چینی پائ جارہی ہے تفصیلات کے مطابق بلدیہ عظمی کراچی کے اہم عہدے ٹارگیٹ پر میونسپل سروسز کے محکمے میں سید صلاح الدین احمد کو گریڈ بیس کا عہدہ نواز دیا گیا جو فیڈرل سروس کے صحیح مگر گریڈ اٹھارہ کے ہیں،طحہ سلیم کو پہلے ڈائریکٹر پارکس تعینات کیا گیا تھا وہ بھی اوپی ایس کی شکل میں عہدے پر تعینات کئے گئے اب دوبارہ ظفر بلوچ کو ڈائریکٹر پارکس تعینات کر دیا گیا ہے جبکہ ظفر بلوچ کی تعیناتی سے قبل طحہ سلیم کو اس پوسٹ سے ہٹایا ہی نہیں گیا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ طحہ سلیم ڈائریکٹر پارکس کے بجائے ڈائریکٹر جنرل پارکس کے اختیارات استعمال کر رہے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح غیر اعلانیہ طور پر لیاقت قائمخانی ڈی جی کے اختیارات استعمال کرتے رہے، اسوقت صورتحال یہ ہے کہ محکمہ پارکس کا سائننگ اتھارٹی کا استعمال کون کرے گا معمہ بن گیا ہے اور اس کی وضاحت نہیں کی گئی تو محکمہ پارکس کے سیاہ وسفید کا معلوم کرنا مشکل ہو جائے گا جبکہ اطلاعات ہیں کہ ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی افتخار شلوانی نے جو دو افسران وفاق سے درآمد کر کے بلدیہ عظمی کراچی میں متعین کئے ہیں وہ بلدیہ عظمی کراچی کی بھاری بھرکم گاڑیوں کا بمعہ فیول استعمال کر رہے ہیں جبکہ بلدیہ عظمی کراچی کے کئی اعلی افسران استحقاق کے باوجود گاڑیوں سے محروم ہیں اور یہ نئی صورتحال ان کیلئے تشویش کا سبب بن رہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ چہروں کی تبدیلی کا گیم پھر ہو رہا ہے پہلے کارکردگی پھر مراعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کم گریڈ کے چہروں کو اہم اختیارات سونپنے کی حکمت عملی پر عمل درآمد کیا جارہا ہے جبکہ گزشتہ روز آرٹیکل 140 اے کے حوالے سے ہونے والی کاروائی کے دوران معزز جج صاحبان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مقامی طرز حکومت میں وفاقی اور صوبائی بیجا مداخلت درست نہیں ہے جبکہ افتخار شلوانی مزید چار افسران کو وفاق سے بلدیہ عظمی کراچی میں لانے کی کوشش میں مصروف ہیں اس سارے گیم پلان میں میونسپل کمشنر سیف الرحمن جو کہ وفاق کے اہم افسر ہیں کھڈے لائین لگا دئیے گئے تھے جس کی بنا پر انہیں تبادلے کی صورت میں بلدیہ عظمی کراچی سے ہٹا دیا گیا ہے ان دنوں بلدیہ عظمی کراچی سمیت دیگر بلدیاتی اداروں میں وفاقی اور صوبائی مداخلت کی وجہ سے صورتحال غیر یقینی ہو چکی ہے جو بلدیاتی اداروں کو درست سمت میں گامزن کرنے کے بجائے کارکردگی کو مزید خراب کر سکتی ہے بلدیاتی اداروں کا اصل مسئلہ کرپشن ہے جسے روکنے کیلئے تاحال کوئی نمایاں کام ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں کم ازکم بلدیاتی اداروں میں آئندہ کرپشن کو روکنے کیلئے نظام وضع کیا جانا چاہیئے تاکہ فنڈز کے درست استعمال کے ذریعے عوام کو سہولیات پہنچانے کیلئے کام کئے جاسکیں مگر بلدیہ عظمی کراچی سمیت ضلعی بلدیات میں توپوں کا رخ کسی اور ہی جانب ہے جو بلدیاتی اداروں کا نظم ونسق خراب کر رہا ہے.



