منتخب نمائندے بھی دباؤ ڈال کر مرضی کا کام چاہتے تھے۔ چار سال عزاب سے کم نہ تھے۔ محمد رضوان خان

فلاحی زمینیں بچانے اور اربوں روپے کے ایم سی کے بچانے پر جبری ہٹانے کی سزا پر کوئی افسوس نہیں۔ محمد رضوان خان
اورنگی کی سینکڑوں ایکڑ زمینیں واگزار کرائیں۔ سیاسی مداخلت اور غنڈہ گردی کا ون مین آرمی بن کر مقابلہ کیا۔ صحافی دوستوں سے گفتگو

چند ضمیر فروش افسران کی وجہ سے کام کرنے میں دشواری تھی۔ یہ افراددیمک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔

نیب اور اینٹی کرپشن کو معلومات دے دیں اب انکا کام ہے کہ وہ سیاسی اور سرکاری کالی بھیڑوں کے خلاف کاروائی کریں، جنرل سیکریٹری کووا کراچی

پروجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ہٹانے کا کوئی آرڈر نہیں ملا۔ جبری اور غنڈہ گردی سے چارج لیا گیا۔ ڈیوٹی پر تھا۔ دورے پر اورنگی گیا اور غنڈہ بردار افراد ایک ڈائریکٹر کی سرپرستی میں دفتر پر حملہ آور ہوگئے۔
پروجیکٹ ڈاءیریکٹر اورنگی رضوان خان

اللہ توکل پر جیتے آئے ہیں۔ احتساب کے لئے کسی بھی فورم پر پیش ہو سکتا ہوں منتخب نمائندے بھی دباؤ ڈال کر مرضی کا کام چاہتے تھے۔ چار سال عزاب سے کم نہ تھے۔ محمد رضوان خان
خاندانی آدمی ہوں۔ خان ہوں۔ اخلاقیات جانتا ہوں۔ کسی کے دفتر پر چڑھائی نہیں کرتا۔ انسانوں کی طرح چارج لینا چاہئے تھا۔ چالیس سال سے دوستی تھی لیکن ایک سیاسی رہنما جو ڈائریکٹر بھی ہیں ان کے ایماء پر زبردستی کی گئی۔ ڈپٹی میئر اور سعد بن جعفر نے سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔ غلط کام نہ کرنے پر کنور حسن مسعود اور دیگر نے ایجنسیوں کے ذریعے غائب کرنے کی دھمکی دی۔ تین مرتبہ گھر پر غنڈے بھیجے۔ محمد رضوان خان

(کراچی ( اسٹاف رپورٹ)
کراچی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری اور پروجیکٹ ڈائریکٹر اورنگی بلدیہ عظمی کراچی محمد رضوان خان نے کہا ہے کہ فلاحی زمینیں بچانے اور اربوں روپے کے ایم سی کے بچانے پر جبری ہٹانے کی سزا پر کوئی افسوس نہیں۔قانونی جنگ لڑ رہا ہوں۔ میں ترنوالہ نہیں۔ پچھلی تاریخوں میں آرڈر کرکے یکم ستمبر کو جبری میرے ڈیوٹی پر ہونے کے باوجود چارج لینا ۔ خلاف قانون ہے۔ میٹروپولیٹن کمشنر کی جوائننگ ہو گئی ہوتی تو درست عمل ہوتا۔ مجھے آج تک ہٹانے کا لیٹر نہیں ملا۔ بدستور پروجیکٹ ڈائریکٹر ہوں۔ تصادم نہیں چاہتا۔ اپنے اعلی افسران کے فیصلے کا منتظر ہوں۔ انہوں نے یہ بات صحافی دوستوں کے ساتھ گفتگو اور انکے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہی۔محمد رضوان خان نے کہا کہ اورنگی کی سینکڑوں ایکڑ زمینیں واگزار کرائیں۔ سیاسی مداخلت اور غنڈہ گردی کا ون مین آرمی بن کر مقابلہ کیا۔ چند ضمیر فروش افسران کی وجہ سے کام کرنے میں دشواری تھی۔ یپہ افراددیمک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ نیب اور اینٹی کرپشن کو معلومات دے دیں اب انکا کام ہے کہ وہ سیاسی اور سرکاری کالی بھیڑوں کے خلاف کاروائی کریں۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ہٹانے کا کوئی آرڈر نہیں ملا۔ جبری اور غنڈہ گردی سے چارج لیا گیا۔ ڈیوٹی پر تھا۔ دورے پر اورنگی گیا اور غنڈہ بردار افراد ایک ڈائریکٹر کی سرپرستی میں دفتر پر حملہ آور ہوگئے۔ اللہ توکل پر جیتے آئے ہیں۔ احتساب کے لئے کسی بھی فورم پر پیش ہو سکتا ہوں منتخب نمائندے بھی دباؤ ڈال کر مرضی کا کام چاہتے تھے۔ چار سال عزاب سے کم نہ تھے۔ خاندانی آدمی ہوں۔ خان ہوں۔ اخلاقیات جانتا ہوں۔ کسی کے دفتر پر چڑھائی نہیں کرتا۔ انسانوں کی طرح چارج لینا چاہئے تھا۔ چالیس سال سے دوستی تھی لیکن ایکسیاسی رہنما جو ڈائریکٹر بھی ہیں ان کے ایماء پر زبردستی کی گئی۔ ڈپٹی میئر اور سعد بن جعفر نے سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔ غلط کام نہ کرنے پر کنور حسن مسعود اور دیگر نے ایجنسیوں کے ذریعے گھسیٹتے ہوئے غائب کرنے کی دھمکی دی۔ تین مرتبہ گھر پر غنڈے بھیجے۔ اورنگی کی پرائم زمینیں بچا لیں۔ لینڈ گریبرز کے راستے بند کئے۔ میڈیا کو میرے خلاف استعمال کیا گیا۔ جس میں کے ایم سی کے مخالف افسران اور سیاسی افراد تھے۔ فخر ہے کہ اگر کسی بھی دور میں غلط کام ہوا ہے تو اسے سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق منسوخی کے لئے کیس کردیا۔ پہلا پروجیکٹ ڈائریکٹر ہوں جس نے کے ایم سی کے 140ملین روپے کی ریکوری کے لئے نوٹس دیئے اور پی ٹی سی ایل پر Suitفائل کیا ہوا ہے جبکہ چار تھانوں، ڈی ایم سی ویسٹ،، ہیلتھ ڈپارٹمنٹ پر بھی کروڑوں کے واجبات نکالے ہیں۔ جن پر عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔ کے الیکٹرک پر 23کروڑ کے ڈیوزنکالے۔ 33لاکھ کے الیکٹرک سے وصول کئے۔ گلشن ضیاء کا مقدمہ جیتا لیکن یہاں ماضی میں 2008ااور2009میں چائنا کٹنگ کرنے والے دوبارہ متحرک ہوگئے۔ میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمان نے صرف مدد کی اور واجبات کی وصولی میں بھی وہی سنجیدہ ہیں۔محمد رضوان خان نے کہا کہ وہ قانونی کاروائی پر یقین رکھتے ہیں۔ سیاسی افراد کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ جنکی آنکھوں میں وفا نہیں۔عوام کے خادم کی حیثیت سے سرکاری فرائض جہاں موقع ملے گا انجام دیں گے۔
٭٭٭٭٭

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں