آرٹیکل 140 اے کا اطلاق ہی شہری ودیہی مسائل حل کرسکتا ہے

رپورٹ: فرقان فاروقی
آئین پاکستان کا آرٹیکل 140A کا اطلاق کرنے کو ہر صوبے کو کہا گیا ہے، مگر حکومت سندھ میں نافذ بلدیاتی ایکٹ کو نہ صرف چیلنج کیا گیا ہے بلکہ اسے آئین پاکستان کے مذکورہ آرٹیکل کے منافی قراربھی دیا جا چکا ہے،سیاسی جماعتوں کی جانب سے پٹیشن کے اندراج کے بعد اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ قانونی ماہرین ہی بہتر جانتے ہیں عام قارئین کی معلومات کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آئین کا آرٹیکل 140اے ہے کیا اور اسکا اطلاق ہونا کیوں ضروری قرار دیا گیا ہے، مذکورہ آرٹیکل کے تحت خودمختار بلدیاتی حکومتوں کے قیام پر زور دینے کے ساتھ کہا گیا ہے کہ بلدیاتی نمائندگان کو مالی، انتظامی، سیاسی اختیارات تفویض کئے جائیں گے،جبکہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی پر بھی زور دیا گیا ہے، سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں ابتداء میں ہی لکھ دیا گیا ہے کہ بلدیاتی ادارے صوبائی فریم ورک میں کام کریں گے جس سے بلدیاتی اداروں کی خود مختاری پر سوال پیدا ہونے شروع ہو گئے، سندھ حکومت نے واٹر بورڈ سے لیکر اہم شہری اداروں جس کا کنٹرول بلدیاتی ادارے سنبھالتے ہیں اپنی دسترس میں کرلیا یہ دوسرا اہم نقطعہ ہے جس کی وجہ سےبلدیاتی اداروں کی خودمختاری پر ضرب لگی ہے، دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں شہری ادارے بلدیاتی اداروں کے کنٹرول میں ہوتے ہیں، صفائی کا تصور آتے ہی میونسپل اداروں کا خیال آتا ہے، سندھ حکومت نے ان سے انکا بنیادی کام چھین کر بلدیاتی اداروں کے تشخص کو ہی مسخ کر دیا، سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ قائم ہی کرنا تھا تو اسکا کنٹرول بلدیاتی اداروں کے پاس ہونا چاہیئے تھا مگر اس کے برعکس مذکورہ ادارے کا کنٹرول سندھ حکومت کے پاس ہے اور اسے بھی بلدیاتی اداروں کی خود مختاری پر ضرب قرار دیا گیا ہے، کراچی کے مرحلہ وار اضلاع سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے زیر انتظام چائنیز کمپنی کے حوالے کئے جا رہے ہیں ماضی کے اعدادوشمار کے مطابق صرف ضلع شرقی اور جنوبی سالانہ ٹوٹی پھوٹی مشینری کی مدد سے ایک ارب روپے سے بھی کم خرچے پر کچرا اٹھانے کا کام سر انجام دے رہی تھیں جو اب سندھ سولڈ ویسٹ اربوں میں سر انجام دینے کے باوجود بہتری نہیں لاسکا ہے جب کہ سب سے پہلے مذکورہ ضلعوں سے صفائی کے معاہدے کئے گئے تھے اس کے ساتھ واٹر بورڈ، ماسٹر پلان، کے ڈی اے، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سمیت کئی شہری ادارے جنکا کنٹرول بلدیاتی اداروں کے پاس ہونا چاہیئے سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہے، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اعلی عدلیہ اپنے ریمارکس میں کہہ چکی ہے کہ ترقیاتی کام کروانا بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے پھر قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کو اس مد میں فنڈنگ کیوں کیجاتی ہے یہ فنڈنگ بلدیاتی اداروں کو ہونی چاہیئے کیونکہ اراکین اسمبلی کا کام قانون بنانا ہے ترقیاتی کام کروانا نہیں، اس کے برخلاف سندھ حکومت نے ترقیاتی کاموں کا بیڑا بھی اپنے سر لے لیا اور اسوقت جو ترقیاتی پروجیکٹس جاری ہیں اس میں بلدیاتی اداروں کو دور رکھا گیا ہے بلدیاتی ادارے چھوٹے چھوٹے ترقیاتی کاموں تک محدود کر دئیے گئے ہیں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 اے کے تحت یہ خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو مالی و انتظامی اختیارات ہونگے، موجودہ صورتحال میں جب کراچی سمیت سندھ بھر کے بلدیاتی اداروں کے پاس صفائی اور ترقیاتی کاموں کے اختیارات نہیں ہیں تو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلدیاتی اداروں میں یونین کونسل یا یونین کمیٹی نچلی سطح پر عوام کے مسائل کے حل میں معاون اسی وقت ثابت ہوگی جب وہ با اختیار ہونے کے ساتھ فوری طور پر عوامی مسائل کے حل کیلئےفیصلے کر سکے، جب سارے کام صوبائی حکومت نے کرنے ہیں تو بلدیاتی ایکٹ یا قوانین کی ضرورت ہی نہیں ہے، مختصر جائزے میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سندھ میں نافذ بلدیاتی ایکٹ کافی حد تک دستور پاکستان کے منافی ہے جس کا سدباب ہونا چاہیئے،کیونکہ بلدیات کا کام گھر گھر جا کر سہولیات پہنچانا ہے جس میں رکاوٹ شہروں، دیہاتوں کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے اور ایسا ہی کچھ سندھ میں دیکھنے کو مل رہا ہے اگر حکومت سندھ کو خدشہ ہے کہ بلدیاتی ادارے خود مختاری پاکر بدمست ہو جائیں گے تو وہ مختلف کمیشنز بنا کر ان پر سخت نگاہ رکھ سکتی ہے اور ایسے کمیشنز کو با اختیار رکھنے میں کوئی عار بھی نہیں ہے لیکن عوام کے مسائل حل کرنے سے عاری بلدیاتی نظام سے ۔بہتر ہے کہ وہ نہ ہی ہوں



