آؤٹ ڈور ایڈورٹائزمنٹ سے افسران آؤٹ کر دئیے گئے؛

رپورٹ: فرقان فاروقی)بل بورڈز، سائین بورڈز کی اجازت اور ان کا نصب کیا جانا سپریم کورٹ کے احکامات کی دیدہ دلیری کے ساتھ خلاف ورزی ہے،وال پیسٹنگ کی اجازت ملنے کے بعد اینگل آئرن کے اسٹرکچر تاحال شہر میں آویزاں ہیں جو واضح کر رہے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو اعلی عدلیہ کے احکامات کی پاسداری کا کوئ احساس نہیں ہے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ غیر یقینی بنانے میں بلدیاتی ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ جب کوئ افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونے لگتا ہے کمشنر کراچی نے بل وسائین بورڈز ہٹانے کے احکامات صادر کر دئیے جبکہ محکمہ بلدیات سندھ نوٹیفیکیشنز، سرکلرز، احکامات ودیگر خطوط نکالنے کی مشین بنا ہوا ہے جب کہیں کوئ اہم مسئلہ ہوتا ہے مشین سے لیٹر نکل کر اداروں تک پہنچ جاتا ہے معاملات اسی لئےسنگینی کی جانب گامزن ہو رہے ہیں کہ بقول دلاور فگار “رشوت لے کر پھنس گیا ہے رشوت دیکر چھوٹ جا ” بورڈ گرنے کے افسوسناک واقعے کے بعد پہلے ضلع جنوبی میں سنگین الزامات اور چارج شیٹ علیحدہ سے پیش کی جائے گی کا عندیہ دیکر دو افسران کو معطلی کا پروانہ تھما دیا گیا جبکہ اسی ضلع میں اہم پوسٹ پر آؤٹ ڈور ایڈورٹائزمنٹ کنگ موجود ہے دوسرے حکمنامے میں بلدیہ وسطی میں ڈائریکٹر ایڈورٹائزمنٹ کی حیثیت سے ظفراقبال مغل کو تعینات کر دیا گیا ہے جو شمعونہ صدف جیسی مضبوط افسر کو پچھاڑنے میں کامیاب رہے ورنہ بلدیہ وسطی میں حکمرانی کی طرز پر شمعونہ صدف کا راج تھا بلدیہ وسطی کے لحاظ سے یہ بڑا اپ سیٹ ہے جو گزشتہ روز کے واقعے کو جواز بنا کر سر انجام دیا گیا ہے دوسری جانب ایس یوجی افسران کی پے درپے تعیناتیاں بلدیاتی افسران کو مضطرب کر رہی ہیں کیونکہ بلدیاتی اداروں میں منظم طریقے سے مقامی کا تصور دم توڑ رہا ہے ایڈورٹائزمنٹ جیسے پیسہ بٹور محکمے میں تیزی سے غیر مقامی افسران کی تعیناتیاں یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ آئندہ بلدیاتی الیکشن سے قبل کراچی میں بلدیاتی امور کا کنٹرول غیر مقامی افسران سنبھال لیں گے البتہ یہ درست کام ہے کہ جو افسران کوتاہیاں کریں ان کے خلاف سخت ترین کاروائیاں ہونی چاہیئے لیکن شفاف کاروائیوں کے بعد ہی ممکن ہے کہ بلدیاتی وشہری ادارے درست سمت پکڑیں ورنہ آؤٹ اور ان کے سلسلے جاری رہیں گے اور بلدیات کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا سلسلہ بلاتوقفچلتا رہے گا.




