“نئے نئے مسائل میں الجھایاجانے والا شہر “کراچی”

نئے نئے مسائل میں الجھایاجانے والا شہر “کراچی”

(رپورٹ: فرقان فاروقی)مارچ کے آخر سے کراچی میں کورونا کی وباء اس طرح پھیلتی دکھائی دی کہ جیسے خدانخواستہ پورا شہر یہ وباء کھا جائے گی مرحلہ وار یہ شور اتنا بڑھا کہ مئ کے مہینے میں ایسا لگتا تھا کہ کراچی کورونا زدہ شہریوں کا مرکز ہے اس وباء نے شہریوں کو متاثر بھی کیا کئ جانیں بھی گئیں لیکن تاریخ جب بھی رقم ہوگی افراتفری پھیلانے میں سندھ حکومت کا نام سر فہرست ہوگا، پرنٹ والیکٹرانک میڈیا پر روز روز رپورٹ نشر کر کے شہریوں سمیت پورے سندھ کو خوف میں مبتلا رکھا گیا اس بات میں وزیراعظم پاکستان عمران خان بالکل حق بجانب تھے کہ کراچی جیسے شہر کو مکمل طور پر مفلوج کیا جانا درست نہیں جہاں جہاں کیسز رپورٹ ہوں وہاں کم ازکم 14 دن کا اسمارٹ لاک ڈاؤن لگا کر کورونا کنٹرول کیا جائے پورے کراچی اور سندھ کو مہینوں بند کر کے معاملات خوف کی طرف لیجائے گئے حکمت عملی اسمارٹ لاک ڈاؤن کی ہی کام کر گئ اور اب کورونا کی باتیں کم کم ہی ہو رہی ہیں لیکن چار، پانچ مہینے کی عادت کے بعد سینیٹائزر کے استعمال کی عادت کے ساتھ لوگوں کو ماسک لگانے کی بھی عادت ہوگئ ہے کراچی کا مقدر بنا دیا گیا ہے کہ ایک مصیبت سے نکلنے کے بعد دوسری مصیبت ان کی منتظر ہوتی ہے برسات کو رحمت قرار دیا جاتا ہے جس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کائنات میں زندگی کے معاملات پانی کے بغیر چلنا ممکن ہی نہیں ہے سندھ حکومت نے عندیہ دیا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے کراچی کے نالے صاف کئے جائیں گے پے درپے برسات نے یہ ڈھونگ رچا ڈرامہ بھی بے نقاب کر دیا اورنگی ٹاؤن کے مکینوں کو سینے سینے تک گندے پانی میں ڈوبا دیکھ کر واضح ہوگیا کہ نالے لیپ پوت سے آگے نہیں بڑھے ہیں چوکنگ پوائنٹس صاف نہ ہونے کی وجہ سے نالوں نے بپھرنے میں دیر نہیں لگائی اورجہاں راستہ ملا گھس گیا نالوں کے بپھرنے کے بعد شایدوفاقی حکومت کو برسات کے بعد کراچی کے شہریوں کا احساس ہوا کہ وہ کس کرب میں مبتلا کر دئیے گئے ہیں اور این ڈی ایم اے کو میدان میں اتارا گیا اور اس میں کوئ شک بھی نہیں کہ جس تیز رفتاری سے نالوں کو صاف کیا گیا ہے وہ قابل تعریف ہے لیکن این ڈی ایم اے کا کراچی میں اترنا اس لئے بھی خوش آئند ثابت ہوا ہے کہ اطلاعات کے مطابق اب نالے صرف این ڈی ایم اے ہی صاف نہیں کر رہا بلکہ عزت بچانے کی خاطر سندھ حکومت بھی نالے صاف کرنے میں مشغول ہے اور تواور برسات کے چوتھے اسپیل کے بعد وزیراعلی سندھ سمیت صوبائی کابینہ سڑکوں پر موجود ہے اور ایسی ایسی جگہوں سے منٹوں، گھنٹوں میں برساتی پانی صاف کروایا گیا ہے جہاں شہری ہفتے ہفتے قدرت کے بھروسے پر رہتے تھے کہ کب نالوں سےپانی اترے اور ان کے گھروں میں داخل ہونے والا پانی نالہ برد ہو اس لحاظ سے ماننا پڑے گا کہ وزیراعظم پاکستان کی این ڈی ایم اے کو کراچی میں اتارنا اب تک کراچی کیلئے اچھا ثابت ہو رہا ہے جس میں تیز ترین برسات کے اسپیل کے بعد 70 فیصد شہر درست حالت میں ہے اور صوبائی وزراء پروٹول کے بجائے بذات خود بھی نکاسی آب کے کام کیلئے تیار دکھائ دے رہے ہیں اب اگر برسات کے بعد این ڈی ایم اے واپس گئ تو کراچی کا ماضی میں واپس چلا جانا یقینی ہے بہتر یہ ہی ہوگا کہ ایف ڈبلیواو کو کراچی کیلئے اسوقت تک وقف کر دیا جائے جب تک کراچی کا انفراسٹرکچر بہتر ہوجائے ورنہ یاد رہے کہ اسی سندھ حکومت نے شاہراہ فیصل تین سال قبل اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کی تھی جو اب دوبارہ تعمیر کی منتظر دکھائ دیتی ہے لہذا لیپاپوتی سے کراچی کو بچانے کیلئے تکنیکی مہارتوں پر مشتمل ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہے جو مبینہ طور پر سندھ حکومت فراہم کرنے میں ناکام ہے جبکہ بلدیاتی ادارے کرپشن زدہ ناسوروں سے بھر چکے ہیں جن سے جان چھڑانا علیحدہ مسئلہ بنا ہوا ہے ایک کے بعد دوسرے مسئلے میں الجھایا جانے والا کراچی زخم سہتے سہتے مکمل صحتیابی کیلئے آئی سی یو سے باہر آنے کیلئے بیتاب ہے لیکن اس کیلئے ناسور زدہ زخموں کو بھرنے کیلئے ناسور کے خاتمے کا علاج ناگزیر ہوگیا ہے.

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں