کراچی تاریخی حیثیت کھو رہا ہے، سدھرنے کو کوئی تیار نہیں

کراچی تاریخی حیثیت کھو رہا ہے، سدھرنے کو کوئی تیار نہیں

کراچی(رپورٹ:فرقان فاروقی)روشنیوں کا شہر کراچی تیزی سے اپنی شناخت تقریبا کھو چکا ہے کیونکہ جب بجلی ہی دستیاب نہیں تو کہاں کا روشنی کا شہر، ملیر کے باغات کے حوالے سے کراچی کی ایک شناخت باغوں کے شہر کے لحاظ سے بھی ہوتی تھی سب باغ غلیظ پانی کھا گیا لہذا پہچان کا یہ قصہ بھی تمام ہوا کراچی اہل علم کے گہوارے کے طور پر مشہور تھا یہاں ہر علاقے میں سرکاری یا نجی لائبریریاں ہوتی تھیں لیکن اب صورتحال سب کے سامنے ہے ای ـلائبریریاں تو دور کی بات ماضی کی طرز کی لائبریریوں پر بھی توجہ نہیں ہے جبکہ نئ لائبریریوں کی ضرورت پیداوارانہ سوچ کی نذر ہوچکی ہے، کئ سہولیات سے محروم کراچی اب اس صورتحال پر پہنچ چکا ہے کہ یہاں پلوں، انڈربائ پاسز کی بڑھائ گئ تعداد بھی اچھی نہیں لگتی کیونکہ کراچی کی آبادیاں تباہ ہو چکی ہیں سوک سروسز کے انفراسٹرکچر تقریبا ختم ہو چکے ہیں محض لیپا پوتی سے شہر کا نظام چلایا جا رہا ہے بیرون شہر کو چھوڑ کر جسے کاسمیٹک ورک کر کے کچھ سجا کر رکھا جاتا ہے یا کچھ پوش آبادیوں والے علاقے بھی اس میں شامل کرلیں تو شہر کا بھرم قائم رہ گیا ہے ورنہ اندرون شہر جو شہر کا 60 فیصد حصہ ہے کھنڈر بن چکا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ کھنڈروں میں روشنی نہیں ہوتی اور شاید یہاں انسان بھی نہیں بستے البتہ بیرون شہر اکثریت ان عمارتوں کی ہے جو کسی بھی وقت کھنڈر بن سکتی ہیں کیونکہ وہ ہمارے ایک شہری ادارے اور اب صوبائی ادارے کی سیاہ کاریوں کی بھینٹ چڑھ کر نہ توبنیادوں کے لحاظ سے مضبوط ہیں اور نہ ہی ان کی تعمیر تکنیکی مہارتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہوئ ہےاسی لئے بین الاقوامی سطح پر کراچی کو نہ رہنے کی جگہ کا خطاب بھی مل چکا ہے کراچی ایک عرصے تک دہشت گردی کا مرکز رہا یہاں روزانہ کئ لاشیں گر کر زمیں کو سرخ کرتی تھیں بیگناہوں کا خون کراچی کے کئ حصوں کو سرخ کرتا رہا حد تو یہ تھی کہ عالم دین بھی نہیں بخشے گئے ادارے اپنی غفلتوں سے بری الذمہ قرار نہیں دئیے جاسکتے، مگر یہ سوچا جائے کہ ماضی کے کئ عشروں تک کراچی کے چپے چپے کو خون میں ڈبویا گیا اور اللہ کی مخلوق کی داد رسی کرنے کے بجائے مصلحتیں اختیار کی جاتی رہیں تو یاد رہے کہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے پھر نہ کوئی مصلحت کی اہمیت ہے اور نہ ہی لاپرواہی کی، جب یہ چیزیں اختیار کی گئیں تو کس طرح یہ شہر پنپ سکتا ہے عالم دین جس شہر میں بے دردی سے شہید کر دئیے جاتے تھے اس شہر میں ویرانیوں کا راج ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہےالبتہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کے بعد کراچی کو امن وسکون نصیب ہوا تو نئی دہشت گردی جو سیاسی اور لسانی نوعیت کی چپقلشوں سے ابھر کر سامنے آئى ہے اس نے شہر کو برباد کر دیا ہے اب ہر کوئی کراچی کا دعویدار مگر کراچی کسی کی دعویداری کا ثمر پانے سے محروم ہے جس کا بس چل رہاہے سیاسی طور پر اسے استعمال کرتا ہے اور منزل پانے کے بعد ترساؤ اور ترساؤ کی پالیسی پر عمل پیرا رہتا ہے تاکہ نظام سلطنت سہولیات فراہم کرنے کے بعد برباد نہ ہو جائےاب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ باران رحمت بھی کراچی کیلئے باران زحمت بن چکی ہے سینے سینے تک پانی جمع ہونا ظاہر کر رہا ہے کہ توبہ استغفار کی کثرت اور غلطیوں کو سدھارنے کی حکمت عملی کو اب بھی اپنی زندگیوں کا حصہ نہیں بنایا جا رہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہی برآمد ہوتا ہے کہ لوٹ مار، وبائیں اور کسی نہ کسی عفریت میں شہر مبتلا رہتا ہے ماضی شاندار، حال بدحال اور مستقبل اس لئے بے یقینی کا شکار ہے کہ سدھرنے کو کوئ تیار نہیں ہے، سدھار کے بغیر بگاڑ ہی آتا ہے جس دن سدھار آنا شروع ہوا کراچی جیسا غریب پرور دنیا میں نہ کل کوئ تھا اور نہ آنے والے کل میں کوئی اور ہوگا کراچی کے شہریوں سمیت حکمرانوں، سیاستدانوں کی اکثریت نے اسے نوچ کھسوٹ کر برہنہ تو کر دیا ہے اب برہنہ کراچی کو لوٹنے کھسوٹنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا تو ہر ایک کو سمندر کے بپھرنے یا کسی اور آفت کا منتظر رہنا چاہیئے کیونکہ اس کیلئے سارے لوازمات ہم خود فراہم کر چکے ہیں.

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں