فائربریگیڈ، استحصالی عمل سے دوچار

فائربریگیڈ، استحصالی عمل سے دوچار

رپورٹ:فرقان فاروقی

آگ بجھانے پر معمور عملہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہے ایک طرف کے ایم سی کے محکمہ فائر بریگیڈ اقرباء پروری کا شکار ہے تو دوسری جانب ملازمین جائز مراعات سے محروم کئے جانے پر سوال کرتے دکھائ دے رہے ہیں کہ ان کے مسائل حل کرنے کیلئے ارباب اختیار کے پاس کچھ وقت میسر کیوں نہیں ہے کراچی جیسے میگا سٹی کیلئے آگ بجھانے کیلئے پہلے ہی آلات کی کمی ہے اور 24 فائر اسٹیشنز کیلئے صرف 15 فائر ٹینڈرز دستیاب ہیں بیش تر گاڑیاں ومشینری ناکارہ ہو چکی ہیں جس کی مرمت کیلئے تاحال کوئ اقدامات نہیں کئے جاسکے ہیں شہر کو کم ازکم 25 اسنارکل کی ضرورت ہے پورے شہر کا نظام چلانے کیلئے تین اسنارکل پر بھروسہ کیا جا رہا ہے سب سے دلچسپ امر یہ ہے کہ 24 فائر اسٹیشنز کیلئے ایک ایک گاڑی بھی دستیاب نہیں ہے اور جو گاڑیاں دستیاب ہیں ان میں ڈیزل موجود نہیں ہوتا ایک فائر اسٹیشن کے ذرائع کے مطابق اگر ان کے اسٹیشن کے گردونواح میں آگ لگ جائے تو وہ آگ بجھانے کیلئے نکل ہی نہیں سکتے کیونکہ گاڑی میں فیول ہی موجود نہیں ہے ایسے میں عوام ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے گی یہ سوچ کر ہماری حالت پتلی ہو جاتی ہے لیکن مئیر کراچی وسیم اختر سمیت دیگر ارباب اختیار کو کوئ پرواہ نہیں شہر میں آگ لگتی ہے تو لگے یہ اپنے دائرے میں قید رہیں گے حالیہ طیارہ حادثے میں بھی بلدیہ عظمی کراچی کی گاڑیاں دیر سے جائے وقوع پر پہنچنے کے ساتھ وہ کردار ادا نہ کرسکیں جس کی ان سے امید کی جا رہی تھی اگر پچیس اسنارکل اور پچیس ہی فائر ٹینڈرز دستیاب ہوتے

تو طیارے کی آگ پر چند گھنٹوں میں قابو پالیا جاتا، کسی بھی شہر میں فائر بریگیڈ کی حیثیت دیگر محکموں کے انتہائ اہم ہوتی ہے حساس نوعیت کے اس محکمے کو تباہ وبرباد کر دیا گیا ہے اور سندھ حکومت سے لے کر کے ایم سی کے اعلی حکام خاموش تماشائ بنے ہوئے بیٹھے ہیں کروڑوں کی آبادی والے شہر میں بڑی آگ بجھانا اب فائر بریگیڈ کے بس کی بات نہیں رہی ہے اگر دیگر اداروں کی فائر بریگیڈ سروسز موجود نہ ہوں تو حولناک نقصانات سامنے آئیں گے گزشتہ تین سالوں میں جو بڑی آگیں لگی ہیں اس میں بلدیہ عظمی کراچی سے بڑھ کر دیگر اداروں نے کردار ادا کر کے شہریوں کی جانوں کو محفوظ بنایا ہے ہم بھی یہ کام سر انجام دے سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ محکمہ فائر بریگیڈ کو ہر لحاظ سے بہتر بنانے کیلئے کردار ادا کیا جائے یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ جان ہتھیلی پر رکھکر خدمات سر انجام دینے والے فائر فائٹرز کو بدحالی کا شکار کر دیا گیا ہے اور ڈر ہوتا ہے کہ کہیں آگ بجھانے کے بجائے یہ خود کو ہی آگ کے سپرد نہ کر دیں تنخواہیں، الاؤنسز سمیت پندرہ فیصد اضافی تنخواہوں کی ادائیگی تعطل کا شکار ہونے سے ملازمین کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اسی طرح محکمے میں بدعنوانی اپنے عروج پر ہے اسوقت محکمہ بغیر سربراہ کے چل رہا ہے من پسند بنیادوں پر تعیناتیاں کر کے حقداروں کو ان کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سے میونسپل سروسز کا چارج مسعود عالم کے پاس آیا ہے فائر بریگیڈ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اس شخص نے کمپیوٹر ڈیٹا میں اپنا گریڈ اور غالبا عمر بھی تبدیل کروادی جس کی وجہ سے ریٹائرمنٹ کے باوجود ابھی تک ریٹائر نہیں ہوسکے ہیں، فائر فائٹرز ایکشن کمیٹی کی تشکیل کے بعد اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنے پر انتقامی کاروائیاں اپنے عروج پر ہیں غلط الزامات لگا کر صدر یونین سمیت تین ملازمین کو معطل کیا جا چکا ہے ملازمین نے معطلی کے بعد جوابات بھی جمع کروا دئیے مگر جوابات کے بعد نہ تو کوئ کاروائ ہوئ جو یہ ظاہر کر رہی ہے کہ اب معطلی کا کوئ جواز نہیں ہے کرپشن کا یہ عالم ہے کہ جو ملازمین نہیں آتے ان کی مد میں لاکھوں روپے بٹور لئے جاتے ہیں جبکہ آٹھ سال سے یونیفارم کی شکل تک نہیں دیکھی ہے قارئین اس صورتحال میں جب بلدیہ عظمی کراچی کے پاس مشینری بھی موجود نہیں ہے اور ہے تو انہیں چلانے کیلئے ڈیزل موجود نہیں ہے اور ملازمین کی حق تلفیوں کا دائرہ کار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہو تو یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ مئیر کراچی وسیم اختر کی سربراہی میں محکمہ آگ بجھانے کے قابل نہیں ہے اور ایک مخصوص ٹولہ اپنے مذموم مقاصد کیلئے حساس نوعیت کے اس محکمے کے ساتھ بھی کھیلنے میں مصروف ہے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ، وزیر بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ اور مئیر کراچی وسیم اختر کو ہنگامی بنیادوں پر محکمے کی درستگی کیلئے کام کرنا چاہیئے تاکہ کم ازکم کراچی میں کہیں آگ لگے تو یہ اعتماد ہو کہ کے ایم سی کا محکمہ فائر بریگیڈ اس آگ پر قابو پالے گا.

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں