واٹر بورڈ تحقیقاتی اداروں کے ریڈار پر

رپورٹ:فرقان فاروقی
پروجیکٹ ڈائریکٹر کے ڈبلیوایس ایس بی کے دفتر پر چھاپے اور مبینہ اربوں روپے کی ہیر پھیر کے بعد کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے حالات یکسر تبدیل ہونا شروع ہو گئے ہیں ایوب شیخ پر اربوں روپے کی مشینری کی مد میں خرد برد کا الزام ہے جس میں مبینہ طور پر سابق ایم ڈی اسد اللہ خان کا نام بھی لیا جا رہا ہے جبکہ ہائیڈرینٹ مافیا کا گٹھ جوڑ بے نقاب ہونے لگا تھا تحقیقاتی اداروں کی جانب سے کافی عرصے سے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی کارکردگی اور مختلف شعبوں میں ہونے والی کرپشن کو باریک بینی سے جانچا جا رہا تھا کورونا ایمرجنسی کے دوران بھی ہائیڈرینٹ مافیا متحرک دکھائ دی جب کہ تین ماہ سے پانی کا استعمال بھی بڑھ چکا تھا جسے پورا کرنے کیلئے پوش علاقوں کو خصوصی طور پر ٹینکرز فراہمی جاری رکھ کر ہائیڈرینٹس کو متحرک رکھا گیا ایوب شیخ کے ذریعے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ہائ کمان رقومات بٹورنے میں مصروف تھی جبکہ ایوب شیخ بذات خود سر کڑھائ میں لئے پھر رہے تھے تحقیقاتی اداروں کی جانب سے کاروائیاں ہوتی دیکھ کر ایم ڈی اسد اللہ خان کا تبادلہ کیا گیا ہے تاکہ انہیں تحقیقاتی اداروں کی کاروائ سے بچایا جاسکے کیونکہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں ہونے والی مبینہ کرپشن کے تانے بانے محکمہ بلدیات سمیت ان کے منتخب سربراہان سے بھی ملتے ہیں ذرائع کے مطابق اسد اللہ خان ہائیڈرینٹس سے 20 سے 25 لاکھ روپے کی آمدنی کے بجائے چند لاکھ روپے سرکاری فنڈز میں جمع کروانے کے ساتھ کم ازکم دس لاکھ روپے یومیہ کما رہے تھے جبکہ دیگر کاموں کیلئے ان کی اپنے جاننے والوں کی کمپنیاں کام کر رہی تھیں مجموعی طور پر ماہانہ بنیاد پر 15 سے 20 کروڑ بٹورنا ان کا معمول تھا جس کی تصدیق ہائیڈرینٹس اور دیگر کاموں کے بل کی تصدیق سے کی جاسکتی ہے اسد اللہ خان کو سیٹ سے ضرور ہٹا دیا گیا ہے لیکن نیب کے ریڈار نے کئ چیزیں محفوظ کر رکھی ہیں جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ سکتا ہے دوسری جانب خالد محمود شیخ کی بطور ایم ڈی تعیناتی پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور بورڈ کے کئ سینئیر افسران ان کی تعیناتی پر ناخوش ہیں جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ خالد محمود شیخ کو خصوصی ٹاسک کے ساتھ تعیناتی کے خدشات افسران کی نیندیں اڑا رہے ہیں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے رکن سلیمان چانڈیو نے اپنے عہدے سے استعفی بھی دے دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان سے کم سینئیر افسر کو ایم ڈی تعینات کرنا زیادتی ہے وہ سینئیر ہونے کے ساتھ ایم ڈی بھی رہ چکے ہیں لہذا انہیں بطور ایم ڈی تعینات ہونا چاہیئے تھا اسوقت واٹر بورڈ مکمل طور پر نیب و تحقیقاتی اداروں کے ریڈار پر ہے جو واٹر بورڈ میں ہونے والی کرپشن پر مکمل نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور آئندہ کچھ روز میں واٹر بورڈ سے اہم افسران کی گرفتاریاں بھی متوقع ہیں.



