مقامی میڈیا کے مطابق حملہ کابل کے شوربازار علاقے میں کیا گیا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
سیکیورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کا مقابلہ بھی ہوا جس کے نتیجے میں چار حملہ آور مارے گئے ہیں۔
وزارت داخلہ کے ترجمان طارق ارائیں نے اپنے بیان میں کہا کہ حملہ مقامی وقت صبح کے7:45 منٹ پر کیا گیا۔ حملے کے نتیجے میں لوگ عمارت کے اندر محصور ہو کر رہ گئے جن کو نکالنے کیلئے سیکیورٹی آپریشن کیا گیا۔
اقلیتی سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹیرین نریندرا سنگھ خالصہ نے بین الاقوامی میڈیا کو بتایا کہم حملے کے وقت گردواے کے قریب موجود تھے۔ انہوں نے چار ہلاکتوں کی تصدیق بھی کی ہے۔
نریندرا نے بتایا کہ حملہ اس وقت ہوا جب لوگوں کی کثیر تعداد دھرم شالا میں عبادت کیلئے جمع تھی۔ ایک اور سکھ پارلیمنٹیرین نے بتایا کہ حملے کے وقت کم سے کم 150 لوگ دھرم شالا میں موجود تھے۔
تاحال حملہ آوروں کی تعداد کے متعلق کوئی معلوم سامنے نہیں آئیں اور نہ کسی عسکری تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔
حملہ عین اس وقت کیا گیا ہے جب افغان حکومت کو اپنے ملک میں قیام امن کیلئے سینکڑوں مسائل کا سامنا ہے۔ افغانستان میں300 کے لگ بھگ سکھ خاندان رہائش پذیر ہیں اور ماضی میں بھی انہیں دہشتگردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
سن 2018 میں افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں سکھ برادری کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔