صفائی کے نظام کی نجکاری اور حقوق

کراچی(رپورٹ:عابد عباسی)نجکاری کا طوق ایک مرتبہ پھر کراچی کے شہریوں کے گلے میں ڈالنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں ہیں اور اس مرتبہ پانی کو اس نجکاری کا حصہ بنایا جا رہا ہے پاکستان میں اثرورسوخ کی بنیاد پر ہونے والی نجکاریوں سے مفید نتائج تو برآمد نہیں ہوئے ہیں البتہ مرحلہ وار شہریوں کو مہنگائی کے بڑھتے طوفان کی نذر ضرور کیا جاتا رہا ہے کراچی سے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے قیام سے قبل سالانہ لگ بھگ دو ارب روپے میں کچرا اٹھا کر ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا اور صورتحال بہتر نہ سہی لیکن”انڈر کنٹرول” رہتی تھی 2014 میں بورڈ کے قیام کے بعد ابتدائی طور پر صرف دو ضلعوں شرقی اور جنوبی کا صفائی کا نظام نجی شعبے کو دو ارب روپے میں دیا گیا لیکن صفائی کی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے اس حد تک خراب ہوگئی کہ وفاق تک کو کراچی صاف کرنے کیلئے میدان میں اترنا پڑا، نجکاری کے نقصانات مہنگی اور لوٹ مار پر مبنی بجلی کی صورت میں بھی شہری بھگت رہے ہیں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن تک بجلی کا نظام بہتر نہ سہی لیکن تار کاپر کے استعمال ہوتے تھے اب واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی نجکاری ہونے جارہی ہے جس کے بعد شہری فکر مند ہیں کہ پانی مہنگا ہونے کے ساتھ پیٹرول کی طرز پر لیٹر میں دستیاب نہ ہو اور ہر ماہ پانی کے نرخ بھی اوپر نیچے کر کے شہریوں کا بلڈ پریشر بھی اوپر نیچے نہ کر دیا جائے مجموعی طور پر شہری نجکاری کے حامی دکھائی نہیں دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے نجکاری نے شہر اور شہریوں کو سہولیات سے محروم کرنے کے ساتھ مہنگائی کی چکی میں ضرور پیسا ہے لیکن سہولیات پچھلے سے بھی بدتر دی ہیں کچرا، بجلی، گیس اور مواصلاتی نظام نجکاری کے بعد درد سر بنا ہوا ہے اب پانی بھی ہماری پہنچ سے دور کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، کراچی میں پانی بحران سے کسی نہ کسی طرح نمٹ لیاکرتے تھے مگر اتنی قوت نہیں ہے کہ پانی کو پیٹرول کی طرز پر خریدنے پر مجبور کر دئیے جائیں شہریوں نے ارباب اختیار سے گزارش کی ہے کہ جب نجکاری سے کوءفائدہ عام شہری تک نہیں پہنچ رہا ہے تو مزید اداروں کو نجکاری کے عمل سے نہ گزاریں بلکہ ان کو درست سمت میں گامزن کرنے کیلئے کام کریں.

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں