خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان میں ووٹنگ کے موقع پر روایت کے برخلاف اتحاد دیکھنے کو ملا جہاں ایوان میں موجود نمائندوں نے بل کی حمایت میں 352 اور مخالفت میں صرف 65 اراکین نے ووٹ دیے۔
یہ قانون سازی ٹک ٹاک کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے جس کی گزشتہ کچھ عرصے کے دوران مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے لیکن ویڈیو شیئرنگ کی چینی کمپنی کے زیر ملکیت اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے حد سے جھکاؤ پر مغربی ممالک کئی مرتبہ اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
ابھی تک اس بل کے مستقبل پر سوالیہ نشان برقرار ہے کیونکہ بل کے نفاذ کے لیے کانگریس کے بعد سینیٹ سے بھی منظوری ضروری ہے لیکن ساتھ ساتھ ناقدین نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ایسی ایپلی کیشن کے خلاف اتنا سخت قدم کیسے اٹھایا جا سکتا ہے جس کے صرف امریکا میں 17 کروڑ فالوورز ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ اگر یہ بل صدر جو بائیڈن کی میز پر آتا ہے تو وہ ’غیرملکیوں کے زیرتسلط ایپلی کیشنز سے امریکیوں کے تحفظ کے ایکٹ‘ کے تحت اس پر دستخط کر کے اسے قانون کی شکل دے دیں گے۔
اس بل کے تحت ٹک ٹاک کی پیرنٹ کمپنی(مرکزی کمپنی) ’بائٹ ڈانس‘ کو 180 دن کے اندر ایپلی کیشن فروخت کرنا ہو گی بصورت دیگر امریکا میں ایپل اور گوگل پلے اسٹور پر اس پر پابندی عائد کردی جائے گی۔
اس ایکٹ کے تحت صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ امریکا مخالف ملک کے زیر سایہ چلنے والی کسی بھی ایپلی کیشن کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے سکتے ہیں۔
پابندی کے حوالے سے یہ بل ٹک ٹاک کے لیے کافی حیران کن ہے کیونکہ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم کے سلسلے میں گزشتہ ماہ ہی ٹک ٹاک کو جوائن کیا تھا۔
ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شو زی چیو ان دنوں واشنگٹن میں ہیں اور اس بل کو روکنے کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹک ٹاک کے نائب صدر برائے عوامی پالیسی مائیکل بیکرمین نے بل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ تازہ ترین قانون عوامی سطح پر سماعت کے بغیر بے مثال رفتار سے منظوری کے لیے پیش کیا گیا جہاں اس سے سنگین آئینی خدشات لاحق ہیں۔
شریک اسپانسرز اور ایوان میں ریپبلکن کے نمائندے مائیک گیلاگھر اور ڈیموکریٹ کے نمائندے راجا کرشنامُرتی کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ یہ بل ٹک ٹاک پر پابندی نہیں ہے، بس کمپنی کو بائٹ ڈانس سی علیحدگی اختیار کرنا ہو گی۔
چین نے بدھ کے روز خبردار کیا کہ یہ اقدام الٹا امریکا کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو کبھی بھی اس بات کا ثبوت نہیں ملا کہ ٹک ٹاک امریکی قومی سلامتی کو خطرہ ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ٹک ٹاک کو دبانے کا سلسلہ بند نہیں کیا۔
اس تمام تر صورتحال میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا سابقہ موقف تبدیل کرتے ہوئے پیر کو کہا کہ وہ پابندی کے خلاف ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے انسٹاگرام اور فیس بک کے مالک میٹا کو تقویت ملے گی، جسے وہ پہلے ہی عوام دشمن قرار دے چکے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب ٹرمپ امریکی صدر تھے تو انہوں نے بائٹ ڈانس سے ٹک ٹاک کا کنٹرول چھیننے کی کوشش کی تھی لیکن امریکی عدالتوں نے انہیں اس اقدام سے روک دیا تھا۔
اس دوران یہ بازگشت بھی جاری ہے کہ ٹرمپ نے اپنا موقف اس لیے تبدیل کیا کیونکہ ٹک ٹاک میں ایک بڑے سرمایہ کار ہیج فنڈر جیف یاس دراصل ٹرمپ کی 2024 کی انتخابی مہم میں چندہ دے رہے ہیں لیکن ٹرمپ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
ٹرمپ کی اتحادی نمائندہ نینسی میس نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ بل سینیٹ میں دم توڑ جائے گا، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔
دوسری جانب کمپنی کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ ٹک ٹاک چینی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کی سختی سے تردید کرتا ہے اور اس نے کمپنی کی تنظیم نو کی ہے تاکہ امریکی صارفین کا ڈیٹا ملک میں ہی رہے۔