
میڈیا رپورٹ کے مطابق محمد شریف نے غیر ملکی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حادثہ تھا، انہوں نے مجھے نہیں بتایا کہ یہ کیسے ہوا، عرفان خوف کے مارے برطانیہ چھوڑ چکا ہے۔
محمد شریف نے کہا کہ انہوں نے اپنے بیٹے عرفان کو پاکستان میں اس وقت دیکھا جب وہ جہلم آیا، بی بی سی کے رپورٹر کی جانب سے پوچھا گیا کہ اگر موت ایک حادثہ تھی تو عرفان پاکستان کیوں آیا، محمد شریف نے جواب دیا کہ خوف کی وجہ سے، اس کی بیٹی مر گئی تھی اور جب آپ اتنے صدمے میں جاتے ہیں تو ظاہر ہے آپ ٹھیک سے سوچ بھی نہیں سکتے۔
انہوں نے اپنے بیٹے سے برطانیہ واپس جانے اور اپنے کیس کا دفاع کرنے کی بھی اپیل کی، یاد رہے کہ سارہ شریف کی موت کے ایک روز بعد عرفان شریف، ان کا بھائی فیصل ملک، بینش اور 5 بچے برطانیہ سے پاکستان روانہ ہوگئے تھے۔
جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ جب لاش ملی تو گھر میں کوئی اور لوگ موجود نہیں تھے، بچی کی لاش برآمد ہونے کے بعد قتل کی تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔
اولگا شریف اور عرفان شریف کے درمیان علیحدگی ہوچکی ہے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق عرفان شریف کو سارہ شریف کی مکمل کسٹڈی حاصل تھی۔
اولگا شریف نے کہا کہ وہ پولینڈ جا رہی تھیں جب حکام نے فون کیا کہ آپ کو انگلینڈ آکر ڈوور کے پولیس اسٹیشن آنا ہوگا۔
لاش ملنے کے چند ہفتوں بعد ایک پڑوسی (جس نے اپنی شناخت جیسیکا کے طور پر کروائی) انکشاف کیا کہ ان کی بیٹی کے مطابق سارہ اپریل میں بائفلیٹ کے سینٹ میریز پرائمری اسکول آتی تھی جہاں اس کے جسم پر چوٹیں واضح نظر آتی تھیں، بعدازاں سارہ کا خاندان ووکنگ چلا گیا اور اسے دوبارہ اسکول میں نہیں دیکھا گیا۔
ایک اور پڑوسی نے دعویٰ کیا کہ سارہ کی سوتیلی ماں بینش نے بتایا تھا کہ سارہ کو حجاب پہننے کی وجہ سے اسکول میں تضحیک کا نشانہ بنانے کے بعد گھر میں پڑھایا جا رہا تھا۔
پڑوسی نے کہا کہ میں نے بینش کو مشورہ دیا کہ سارہ کو اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ رہنے کی ضرورت ہے، بینش نے جواب دیا کہ سارہ مسجد میں اور سوئمنگ (تیراکی) کلاسز میں نئے دوست بنا رہی ہے۔



