تحریر: سیدہ فرحت العین
“سچائ چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے”وفاقی بورڈ آف ریونیو کی جاری کردہ ٹیکس وصولی اور ٹیکس فائلرز کی رپورٹ کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ کراچی ملک کا معاشی انجن ہونے کے ساتھ ایماندارانہ بنیادوں پر ملک کے خزانے میں خطیر رقم جمع کروا رہاہے لیکن مساویانہ بنیاد پر اس شہر کی ترقی اور مسائل کو دیکھنے کیلئے سب تیار ہیں لیکن اس کے حل کیلئے کوششیں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں اسوقت کراچی کے مسائل سے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور آئے دن ذرائع ابلاغ پر اس کی نشر واشاعت ہوتی رہتی ہے
کراچی کی معاشی زرخیز زمین کا استعمال ریونیو جنریٹر کے طورپر کیا جارہا
ہے مگر سہولیات کے اعتبار سے کراچی دیہی علاقوں جیسی صورتحال کا شکار ہے کیا ہی بہتر ہو کے پاکستان کے اس خطے کو ملک کا حصہ دل سے تسلیم کر کے ایک مرتبہ انفراسٹرکچر کی بہتری پر خرچ کر دیا جائے تو ممکن ہے کہ یہ ریونیو جنریٹر پاکستان کا پورا بجٹ فراہم کر دے اسوقت کراچی کی صرف 6 بڑے بازاروں جس میں صدر ،طارق روڈ ،کلفٹن ،گولیمار ،ڈی ایچ اے ،جوہر مارکیٹ سے ٹیکس وصولیابی 31 ارب روپے ہے
جبکہ ٹیکس فائلرز کی تعداد 85020 ہے دیگر چھوٹی بڑی مارکیٹس کو اس میں شامل ہی نہیں کیا گیا ہے اس کی بھی ایف بی آر رپورٹ پیش کرے تو پورا ملک دانتوں میں انگلیاں چبانے لگے گا صنعتی زونز کی ٹیکس وصولیابیاں بھی اس میں شامل نہیں ہیں اور نہ ہی عام صارفین مختلف مدوں میں جو ٹیکسز ادا کر رہے ہیں وہ بھی حالیہ جاری کردہ رپورٹ کا حصہ نہیں ہے اگر صرف مذکورہ لحاظ سے کراچی کی ٹیکس وصولیوں کا اندازہ لگایا جائے تو ٹیکس وصولیابیاں کہاں تک جائیں گی
معیشت داں اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں یہ حقیقت آشکار کرنے سے ہرایک گریزاں ہے کہ کراچی سے جمع ہونے والے ریونیو کا صرف ایک
ماہ کا پیسہ اس شہر پر لگانے کی حکمت عملی تیار کر کے اقدامات کر لئے جائیں تو یہ ممکن نہیں یقینی ہے
کہ ایک سال بعد کراچی اپنے اوپر لگے پیسے کا قرض اتار چکا ہوگا کیونکہ جیسے ہی کراچی کا انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی ماحول درست ہوگا جیسے آج کل دہشت گردی کے واقعات تو کافی حد تک کم ہوگئے ہیں لیکن اسٹریٹ کرائم کا جن قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور یہ عام پبلک کے ساتھ کاروباری حلقے کیلئے ناسور کی حیثیت رکھتا ہے اور کراچی میں سیکورٹی اداروں کی صلاحیت پر شبہ نہیں کیا جاسکتا جب وہ روزانہ درجنوں افراد کی ٹارگیٹ کلنگز کو ایک جھٹکے میں روک سکتے ہیں تو اسٹریٹ ودیگر کرائم کا روکنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہےاس کے بعدکراچی کا ریونیو اپنی حدیں پار کرنے لگے گا کاروبار کے ایسے ایسے راستے کھلیں گے کہ عقل دنگ رہ سکتی ہے
کراچی میں کاروبار نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ شہری وبلدیاتی سہولیات بالخصوص ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے میں گھنٹے لگ جانا ہے اگر سڑکوں کو اندرونی علاقوں سے لے کر مرکزی شاہراہوں تک نیٹ ورک مضبوط ہو تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ کاروباری وسعت کہاں تک پہنچائی جاسکتی ہے کراچی کیلئے آواز اٹھانے کی سعی سیاسی ،سماجی اور کاروباری حلقوں کی جانب سے کی جاتی رہی ہے لیکن صرف کاروباری حلقہ ایسا ہے جو سنجیدہ ہے کہ کراچی کو ہر لحاظ سے استحکام حاصل ہو جس کی سب سے اہم وجہ ان کے کاروبار کا کراچی سے منسلک ہونا ہے
Notice: Undefined variable: aria_req in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/comments.php on line 83
Notice: Undefined variable: aria_req in /home/inqilabn/public_html/wp-content/themes/UrduPress WordPress Urdu Theme Free (muzammilijaz.com)/comments.php on line 89