
برطانوی میڈیا کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن کی چینی صدر سے ملاقات کے اگلے ہی روز یہ بیان دیا ہے جو انہوں نے کیلی فورنیا میں ہونے والی ایک فنڈریزنگ تقریب کے دوران دیا۔
امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن اور چینی صدر نے گزشتہ روز ملاقات کی تھی جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو دور کرنا تھا۔
چینی صدر نے اس ملاقات کے بعد کہا تھا کہ بیجنگ میں اس حوالے سے پیشرفت ہوئی ہے جب کہ امریکی وزیر خارجہ نے بھی دونوں جانب سے بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے کے اشارے دیے تھے۔
منگل کی رات کو ہونے والی تقریب میں جوبائیڈن نے کہا کہ چینی صدر حالیہ جاسوس غبارے کے معاملے پر شرمندہ ہوئے ہیں جو امریکا کی فضا میں جاسوسی کی غرض سے موجود تھا اور یہی وجہ ہے کہ چینی صدر بہت اپ سیٹ ہیں، جب ہم نے اس غبارے کو نشانہ بنایا تو اس میں جاسوسی کے آلات موجود تھے، یہ ایک ڈکٹیٹر کے لیے بہت بڑی شرمندگی ہے کہ اسے یہ نہیں پتا تھا کہ کیا ہوا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انٹونی بلنکن تقریباً 5 سال کے دوران چین کا دورہ کرنے والی پہلی اعلیٰ سفارتی شخصیت ہیں جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان ہائی لیول رابطے دوبارہ شروع ہوئے ہیں جب کہ جوبائیڈن اور شی جن پنگ نے بھی اس پیشرفت کا خیرمقدم کیا تھا تاہم انٹونی بلنکن نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑے اختلافات موجود ہیں۔
دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے صدر شی جن پنگ کو ڈکٹیٹر کہنے پر چین نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ امریکی صدر جوبائیڈن کے بیان کی سخت مخالفت کرتے ہیں، امریکا کے ریمارکس انتہائی مضحکہ خیز اور غیر ذمہ دارانہ ہیں۔
ترجمان چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکی صدرکا بیان بنیادی حقائق، سفارتی پروٹوکول اور چین کے سیاسی وقارکی سنگین خلاف ورزی ہے، چینی صدرکو ڈکٹیٹرقرار دینا چین کے سیاسی وقارکی سنگین خلاف ورزی اور کھلی سیاسی اشتعال انگیزی ہے۔



