:تحریر:فرقان فاروقی
تحریک انصاف سیاسی داؤ پیچ سیکھنے سے زیادہ باہمی رقابتوں کیلئے مشہور ہونے لگی ہے ،نوازشریف کاایک عہد اچھا یا برا ماضی کا قصہ بن چکا ہے ،سابق تین مرتبہ منتخب وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی خاموشی کو اچھی نظر سے دیکھ لیا جاتا تو آج دبے قدموں سے ان کی جانب بڑھنے والی ہمدردیاں وقوع پذیر نہ ہوتیں کرپشن کیسز اپنی جگہ انسانیت سے بڑھ کر کوئ چیز نہیں ہوتی نواز شریف عرصے سے بیماری میں مبتلا ہیں لیکن انہیں معقول علاج معالجے کی سہولیات سے مبینہ طور پر دور کرنے سے تحریک انصاف کی حکومت تنقید کی زد میں آرہی ہے ،کرپشن کیسز میں نواز شریف کوسزائیں ضرور ہوئیں مگر وزیراعظم پاکستان عمران خان، نواز شریف یا ان کی فیملی سے لوٹی گئ رقوم نکلوانے میں ناکام رہے جو ان کیلئے منفی پہلو کی طرز پر سامنے آرہا ہےاور اب عام آدمی بھی کہہ رہا ہے صرف جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دینا انصاف ہے تو ملک کی رقم کس نے لوٹی ہے ؟سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری بھی قید کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور بھی بہت سے سیاسی قدآور شخصیات اثاثوں سے بڑھکر جائدادیں بنانے کے نام پر دھر لئے گئے مگر جائدادیں زائد ہیں تو اس پر موثر کاروائ کیوں سامنے نہیں آرہی ہے دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسوقت ہو رہا ہے جب مولانا فضل الرحمن دھرنے کی کال دینے کے بعد پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں دکھائ دیتے اور ان کا مارچ شروع بھی ہوچکا ہے ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو دھرنے سے دور رکھنے کیلئے کوئ گیم پلان بھی تیار کر کے اسے عملی جامہ پہنایا گیا ہو اور اگر ایسا ہے تو یہ نئے پاکستان میں پرانے پاکستان کی باقیات کی موجودگی کو ظاہر کر رہا ہے یعنی تبدیلی کا نعرہ لگانے والے بھی سمجھ رہے ہیں کہ پرانے پاکستان میں کچھ چیزیں اچھی تھیں جسے اپنایا جاسکتا ہے اگر ملک میں بہتری لانے کیلئے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں تو پی لیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں یہ نہ دیکھیں کہ کبھی اس ملک میں پیپلز پارٹی یا ن لیگ کی حکومت بھی تھی اور اگر انہیں یاد دلایا جائے تو وہ اسے ماضی قرار دے کر آگے بڑھنے کی بات کریں کیونکہ دکھائ یہ دے رہا ہے کہ حاصل وصول تو کچھ ہوا نہیں اگر خدانخواستہ زیر حراست اعلی شخصیات میں سے کسی بھی ایک کو کچھ ہوگیا تو تحریک انصاف جس طرح ابھر کر سامنے آئ ہے اسی طرح بند کمرے کی جانب بھی جاسکتی ہے ملک کے عوام کو اب کسی نواز شریف ،بھٹو یا کسی اور سے نہیں بلکہ عمران خان سے اب بھی امیدیں وابستہ ہیں کہ سخت دنوں کے بعد اچھے دن بھی آئیں گے اور یہ جب ہی ممکن ہے جب کچھ چیزوں کو قصہ پارینہ سمجھ لیا جائے, پاکستان کے تمام سیکولر اور لبرل طبقوں کی طرف سے ہمیشہ تنقید کی زد میں رہنے والا یہ مولوی عجیب طبیعت کا مالک ہے کسی لبرل اور سیکولر سے شکوہ نہیں کرتا کہ میں کیوں ہدف تنقید ہوں
اس پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے لیکن شدید ترین مخالف چیف جسٹس شدید ترین مخالف گورنمنٹ مل کر بھی اس مولوی کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس نہیں بنا سکے
نیب اور آنٹی کرپشن کے اداروں میں تو اس کے خلاف کبھی کوئی درخواست پیش نہیں ہوئی افتخار چوہدری جیسا مخالف جج بھی اس پر کوئی کیس نہیں بنا سکا
اس پر اور اس کی جماعت پر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے لیکن کبھی کسی تھانے میں اس پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہو سکا اسٹبلشمنٹ نے بڑے بڑے سیاست دانوں کو کھلونا بنا کر استعمال کیا لیکن اس مولوی کے شدید مخالفین بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ مولوی کبھی بھی اسٹبلشمنٹ کا مہرہ نہیں بنا اس پر ہر حکومت میں شامل رہنے کے الزامات لگائے گئے لیکن اس نے اپنی پوری سیاسی کیریر میں صرف دو مرتبہ کسی حکمران جماعت سے اتحاد کیا اور پینتیس سالہ سیاسی زندگی میں مجموعی طور پر صرف سات سال حکومت میں شریک رہے
یہ مولوی اپنے دس بارہ ممبران کے ساتھ کسی بھی حکومت کے لئے اہمیت رکھتا ہے جبکہ بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے مطالبات منوانے میں ناکام رہتے ہیں اس مولوی نے انتہائی مشکل وقت میں اپنے مسلک کو اور خصوصا اپنی جماعت کو انتہا پسندی سے اس انداز سے کھینچ کر باہر نکالا کہ خود ان کے کارکنوں کو بھی پتہ نہیں چلا
پاکستان کی میڈیا جو بال کی کھال اتارنے اور پگڑیاں اچھالنے میں مہارت رکھتی ہے اور دیندار لوگوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی رہتی ہے اس کے باوجود اس مولوی کے خلاف صرف پروپیگنڈہ کرنے کے سوا کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکی ہے
پنیتیس سال سیاست میں رہنے کے باوجود آج تک اس مولوی کا کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا
صوبہ خیبرپختون خواہ میں سیکولرقوتوں کی شدیدترین مخالفت اور اپوزیشن میں ہونے کے باوجود گزشتہ پانچ سال میں ساری صوبائی حکومتی مشینری مولانا یاان کے کسی بھائی بیٹے یاکسی پارٹی لیڈرکے خلاف کرپشن کا ایک کیس نہیں بناسکی. پاکستان کے لاکھوں علما تیس پینتیس سال سے اس کی قیادت پر مطمئن رہتے آئے ہیں اور آج بھی یہ مولوی لاکھوں علما کا قائد مانا جاتا ہے مدرسوں خانقاہوں تبلیغ و تصنیف سے وابستہ علما اس مولوی کو اپنا قائد سمجھتے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں اس جیسے فصیح و بلیغ اور مدلل گفتگو کرنے والا سیاسی لیڈر آج تک پیدا نہیں ہوا
اس کی پوری تقریر میں اگر کوئی ڈھونڈنا بھی چاہے تو ایک لفظ بھی ضرورت سے زیادہ نہیں ملے گا
مولانا فضل الرحمن اسوقت مکمل قوت کے ساتھ میدان میں اترے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی مذاکرات کے بعد ان کا لائحہ عمل کتنا سخت ہوگا جو آئندہ چند روز میں واضح ہو جائیگا لیکن یہ بھی عیاں ہے کہ مولانا صاحب کا دھرنا چاہے درست ہے یا نہیں لیکن اس میں بھی ذاتی پرخاش شامل دکھائ دے رہی ہے.



