
ترکی اور شام کے کئی شہروں میں ہزاروں عمارتیں منہدم ہو گئیں، اسپتال اور اسکول تباہ ہو گئے اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے۔
وزیرصحت ترکیہ کے مطابق ترکی میں جاں بحق افراد کی تعداد 5 ہزار 894 ہوگئی ہے۔
شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق شام میں جاں بحق افراد کی تعداد 2ہزار 470 تک پہنچ گئی ہے جبکہ دونوں ملکوں میں زخمیوں کی تعداد 35 ہزار سے زائد ہے۔
ترک صدر اردگان کے مطابق یہ 1939 کے بعد ملک میں آنے والا شدید ترین زلزلہ ہے۔
غازیانتپ اور احاطہ ایئر پورٹ کے رن وے پر دراڑیں پڑ گئی ہیں، جس کے بعد پروازیں معطل کر دی گئی ہیں۔
بہت سی سڑکیں بھی تباہ ہوگئی ہیں، منگل کے روز حکام نے ہدایات جاری کیں کہ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں جانے والے کاریں لے کر نہ جائیں۔
ترکیہ میں امدادی کاروائیاں تاحال جاری ہیں، ملبے تلے مدفون کئی افراد کو نکالا جاچکا ہے ، جبکہ دیگر کو نکالنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
امدادی کارکن پورے خطے میں رات بھر اور صبح تک زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں مصروف رہے، لوگ ملبے کے ڈھیروں پر پریشانی کے عالم میں منتظر بیٹھے رہے کہ شاید ان کے دوست اور رشتہ دار زندہ مل جائیں گے۔
اس موقع پر ہولناک مناظر بھی دیکھنے کو ملے، روتے بلکتے بچے، مائیں اور فولاد سے مضبوط مرد اپنے خاندان اور دنیا لٹنے کے باعث ٹوٹتے اور ہچکیوں کے ساتھ روتے نظر آئے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر سے ممالک امدادی سامان، کارکنان، فوجی دستے، ڈاکٹرز، ادویات اور راشن کے جہاز ترکیہ بھیج رہے ہیں۔
پاکستان میں بھی کئی سماجی تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت ترکیہ کیلئے امداد جمع کر رہی ہیں، جن میں الخدمت سرفہرست ہے۔
عالمی ادارہ برائے صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے جنیوا میں کہا کہ یہ اب وقت کے خلاف ایک دوڑ ہے۔ ”ہر گزرتے منٹ، ہر گزرتے گھنٹہ سے زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں۔“



