بانی متحدہ کا باب ختم کیا ہوا،ایم کیوایم پاکستان نے اردو بولنے والوں کی قبر میں آخری کیل ٹھوکنے کا عہد کر لیا
مخالفین بھی اب دبے دبے الفاظ میں بانی متحدہ کی حمایت کرتے دکھائی دے رہے ہیں
مخالفین کا موقف ہے قتل وغارتگری کے بغیر بانی متحدہ کو سیاست کی اجازت ملنی چاہیئے
کراچی(رپورٹ: فرقان فاروقی) ریاست میں ریاست قائم کرنے کی وجہ سے کراچی آج شدید مسائل کا شکار ہے، کراچی کا انفراسٹرکچر تقریبا تباہی کا شکار ہو چکا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کو زخم آلودہ رکھنے پر بضد دکھائ دے رہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان اردو بولنے والوں کو پہنچ رہا ہے کیونکہ سابقہ ایم کیو ایم کے بعد کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو انہیں سہارا دے سکے پیپلز پارٹی نے کھلے میدان کے باوجود لسانی رنگ کو ہوا دیتے ہوئے اردو بولنے والوں کا ساتھ نہ دینے کا عزم کیا ہوا ہے، ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنان اس وقت شدید اضطرابی کیفیت سے دو چار ہیں ان کا کہنا ہے کہ مفاد پرستانہ سیاست نے پہلے الطاف حسین کو سائیڈ لگایا اور اب پوری قوم کو سمندر برد کرنے کیلئے بھی وہ تیار دکھائ دیتے ہیں ایسے میں جب کوئی چیز آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے اور ایم کیو ایم پاکستان سمیت کراچی کی دیگر سیاسی جماعتیں اردو بولنے والوں کے دل سے اتر چکی ہیں ایسے میں ایک مرتبہ پھر بانی متحدہ کو سیاست کا موقع ملنا چاہیئے جبکہ ایم کیو ایم کے شدید مخالف کے منہ سے بھی اس قسم کی ہی باتیں نکل رہی ہیں البتہ ان کا کہنا ہے کہ قتل وغارت گری کی سیاست کے بغیر سیاسی تبدیلی کی جاتی ہے تو وہ انہیں بھی قبول ہوگی مخالفین کا کہنا ہے کہ کراچی سابقہ ادوار میں کھنڈرات کا منظر پیش نہیں کرتا تھا گلی، محلے اجڑ چکے ہیں سیوریج اور کچرے نے شہر کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے ناقص ترقیاتی کاموں کی وجہ سے کوئی بھی کام دنوں سے زیادہ قائم نہیں رہ پاتا، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے سامنے سیاسی جماعتوں کی ایک نہیں چل رہی ہے وہ جس طرح چاہ رہے ہیں شہر کو چلا رہے ہیں اگر سندھ حکومت کرپشن ملوث ہے تو بقایا چند کو چھوڑ کر اس معاملے میں ان کے اسٹیک ہولڈر بنے ہوئے ہیں، کراچی ایک چلتی دکان بنی ہوئی ہے جس کو ہر ایک اپنے استعمال کیلئے کھوکھلا کر رہا ہے لیکن کراچی کے باسیوں کی وجہ سے یہ دکان بند ہونے کے بجائے کرپشن کا گڑھ بھی بنی ہوئی ہے اور آج بھی صوبے اور ملک کو سنبھال رہی ہے ایسے میں کراچی کو مستند اور ڈسپلنڈ سیاسی سیٹ اپ کی ضرورت ہے جو کراچی کو مسائل سے باہر نکالنے کی اہلیت رکھتے ہوں اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ کراچی کا نظام اب پچاس فیصد انفراسٹرکچر سے چل رہا ہے پچاس فیصد انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اس بات کو صرف اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ آج سے چھ یاسات سال پہلے اپنی ذاتی گاڑی میں جو سفر پندرہ منٹ میں کیا جاتا تھا آج وہ آدھے گھنٹے تک پہنچ چکا ہے اگر یہ بات غلط لگ رہی ہو تو عملی تجربہ کر کے دیکھ لیا جائے کیونکہ جب کسی شہر میں ہر کام میں طوالت آجائے تو یہ بات باآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ اس شہر کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اور اسے درست کرنے کیلئے تجربے نہیں بلکہ تجربہ کار، کارآمد ہوتے ہیں.



