بلدیہ شرقی غیر معروف کمپنی سے ہیلتھ انشورنس ملازمین پریشان

بلدیہ شرقی /ہیلتھ انشورنس پالیسی

غیر معروف کمپنی سے ہیلتھ انشورنس پر ملازمین پریشان

بغیر او پی ڈی کے ماہانہ 1500 روپے تنخواہوں سے کٹوتی کی جائے گی، ملازمین

سیاسی دباؤ پر غیر معروف کمپنی کوہیلتھ انشورنس پالیسی دیجارہی ہے، ملازمین

بلدیہ شرقی کے اعلی افسران سمیت کچھ افسران ملازمین کی صحت کے نام پر لاکھوں روپے بٹورنا چاہتے ہیں، ملازمین

کراچی(رپورٹ: فرقان فاروقی)بلدیہ شرقی نے حال میں ہی ملازمین کی صحت کے خیال کے بجائے ایک ایسی غیر معروف کمپنی کو ہیلتھ انشورنس دینے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ چھ سال قبل ملازمین کو شدید عذاب میں مبتلا کر چکی ہے لیکن مالی مفادات کی آفر اور سیاسی دباؤ پر ایک مرتبہ پھر اسی کمپنی کو بلدیہ شرقی کے ملازمین کی ہیلتھ انشورنس پالیسی دئیے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جس پر بلدیہ شرقی کے ملازمین سیخ پا دکھائ دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ او پی ڈی کی سہولیات کے بغیر ایک ایسی کمپنی کو ہیلتھ انشورنس دی جارہی ہے جس کا ماضی داغدار ہے جب اس کمپنی نے بلدیہ شرقی کے ملازمین کو ہیلتھ پالیسی دی تھی اسوقت کسی ملازم کے ساتھ کسی بھی قسم کی ہیلتھ ایمرجنسی ہوتی تھی تو جب تک ہیلتھ انشورنس کمپنی گرین سگنل نہیں دیتی تھی اس کا علاج شروع نہیں ہوتا تھا جبکہ ہیلتھ انشورنس کے قانون کے تحت ہیلتھ انشورنس کارڈکے اجراء کے بعد کارڈ میں مختص رقم کے تحت اسپتال براہ راست علاج کرنے کے پابند ہوتے ہیں لیکن ایسا بلدیہ شرقی میں نہیں ہوا جس کے نتیجے میں معاہدہ ختم ہونے کے بعد نہ تو بلدیہ شرقی کے ملازمین کو ہیلتھ انشورنس ملی اور اعلی افسران سے طے پایا تھا کہ وہ مذکورہ غیر معروف کمپنی سے آئندہ ہیلتھ انشورنس پالیسی نہیں لیں گے لیکن افسران پیسے کی چمک دمک دیکھ کر ایک مرتبہ پھر اسی کمپنی کو ہیلتھ انشورنس پالیسی دینے پر رضامند دکھائ دے رہے ہیں جبکہ اس پالیسی میں او پی ڈی کی سہولیات نہ ہونے کے باوجود ہر ملازم کی تنخواہوں سے 1500 روپے کٹوتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ناقابل قبول ہے ملازمین نے ایڈمنسٹریٹر بلدیہ شرقی رحمت اللہ شیخ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک غیر معروف کمپنی سے ہیلتھ انشورنس کو روکیں بصورت دیگر ایسا کیا گیا تو اس حوالے سے سندھ حکومت کے اعلی حکام کو آگاہ کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا جائے گا.

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں