پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم پاکستان پر خوف کے سائے
جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی کا بلدیاتی انتخابات میں اپ سیٹ کرنے کا امکان

بلدیاتی انتخابات موخر کرنے کی اصل وجہ انتخابات میں ناکامی کا خوف ہے
دیگر سیاسی جماعتیں بھی جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی سے خوفزدہ ہیں

کراچی(رپورٹ: فرقان فاروقی) بلدیاتی انتخابات کے موخر کرنے کے پیچھے اصل وجوہات سامنے آنے لگیں، نمائندہ انقلاب کی جانب سے کراچی کے ساتوں اضلاع میں کئے جانے والے سروے میں کچھ عمومی اور کچھ حیرت انگیز عوامی رائے سامنے آئی، ضلع کیماڑی، غربی میں عوام کی بڑی تعداد ٹی ایل پی کی سپورٹر دکھائی دے رہی ہے بلدیہ ٹاؤن کی بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ آزمائے ہوئے کو آزمانا بے وقوفی ہوگی بلدیاتی انتخابات ہوں یا کوئی اور انتخابات چوائسز واضح ہیں ٹی ایل پی یا جماعت اسلامی کو ووٹ ڈالیں گے ضلع وسطی، کورنگی، شرقی میں صورتحال ملی جلی ہے لیکن ان میں موجود بیش تر علاقوں میں اب جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی کے بہت زیادہ ووٹ بینک دکھائی دے رہا ہے ضلع جنوبی اور ملیر میں پی پی پی کا ووٹ بینک کثیر تعداد میں موجود ہے اولڈ سٹی ایریاز میں جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی اپ سیٹ کرنے کی پوزیشن میں ہیں، ایم کیوایم پاکستان کا کراچی میں ووٹ بینک کم ہوتا محسوس ہورہا ہے سروے کے دوران اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد یا تو کسی کی آمد کی منتظر دکھائی دی یا ان کا رحجان جماعت اسلامی کی جانب ہے ایم کیوایم پاکستان کو اردو بولنے کی بڑی تعداد نے مسترد کر دیا کراچی کے مکمل سروے کے دوران ساٹھ فیصد ایم کیوایم کے سپورٹرز جس میں اہم تنظیمی ذمہ داران بھی شامل ہیں ایم کیوایم پاکستان کی پالیسیوں سے نہ صرف ناخوش نظر آئے بلکہ انہوں نے اہم رہنماؤں پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں کراچی کی سیاست کسی اور کے ہاتھوں منتقل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ وہ کسی اور کے منتظر ہیں اگر وہ سیاسی دھارے میں شامل ہوئے تو ووٹ اور سپورٹ ان ہی کی ہوگی بقایا چالیس فیصد ایم کیوایم سپورٹرز نے ایم کیوایم پاکستان کے ووٹ اور سپورٹ کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا، پیپلز پارٹی کے حوالے سے ان کے گڑھ یعنی لیاری میں ہی ان کی مخالفت بہت بڑھ چکی ہے گوٹھوں میں بھی پیپلز پارٹی کا بظاہر ووٹ بینک کم ہونے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے حقیقت میں کراچی کیلئے کچھ نہیں کیا جہاں ان کے سپورٹرز اور ووٹرز جو سابقہ ایم کیوایم کے خوف کا کبھی شکار نہیں ہوئی لیکن اس کی اپنی پارٹی نے ان کے علاقوں کو موہن جو داڑو کی باقیات کی طرز پر لاکھڑا کیا ہے جہاں طاقتور پیپلز پارٹی کے رہنما موجود ہیں وہاں کچھ کام ضرور ہوئے لیکن انہیں مسائل کے گڑھ میں رہنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ لیاری کے باشندے یہ کہتے دکھائی دئیے کہ پیپلز پارٹی نے لسانیت کو ہوا دینے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اسے عملی شکل دی ہے اگر یہ ہی کرنا تھا تو ایم کیوایم کافی تھی کم ازکم ان کے دور میں ہمیں یہ معلوم تھا کہ ہمارے علاقوں میں کام نہیں ہونگے، پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ، مسلم لیگ ن، ایم کیوایم بحالی کمیٹی سمیت آزاد امیدواروں کی سپورٹ بھی کراچی کی موجودہ 50 سے زائد یونین کمیٹیز میں موجود ہے.
اس تمام صورتحال میں بلدیاتی انتخابات موخر کروانے کے پیچھے ایم کیوایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کا گٹھ جوڑ دکھائی دے رہا ہے کیونکہ دونوں پارٹیز کو محسوس ہورہا ہے کہ کراچی میں ان کا ووٹ بینک کم ہورہا ہے یا ہوچکا ہے دوسرا بڑا خوف جو دونوں پارٹیز کو لاحق ہے وہ سابقہ ایم کیوایم کی فعالیت کا ہے کیونکہ اگر وہ فعال ہو جاتی ہے تو ممکنہ طور پر کراچی کا ووٹ ایک سمت پر گامزن ہو جائے جو نہ پیپلز پارٹی کے حق میں ہے اور نہ ہی ایم کیوایم پاکستان کے حق میں دوسری جانب ایسا نہیں ہوتا تو دونوں جماعتوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی کے اپ سیٹ کرنے کا خوف ستا رہا ہے جو ممکنہ طور پر انہیں الیکشن ملتوی کروانے پر اکسا رہی ہے.



