
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ یہ روابط اس بات کا اشارہ ہیں کہ واشنگٹن کو تہران کی جانب سے طویل عرصے سے جاری جوہری تنازع کو حل کرنے کے لیے ایک نئی تجویز موصول ہوئی ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ تہران نے امریکا کو 2015 کا جوہری معاہدہ بحال کرنے کے لیے نئی تجویز پیش کی ہے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ایران واشنگٹن سے اس بات کی ضمانت طلب کررہا ہے کہ امریکا میں انتظامی یا حکومتی تبدیلی اس معاہدے کو ختم نہیں کرے گی جو کہ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے ساتھ ہوا، جس پر 2015 میں دستخط ہوئے تھے لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے 2018 میں اس معاہدے کو ختم کر دیا تھا۔
جب ایک نیوز بریفنگ میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس سے اس معاملے پر پوچھا گیا تو انہوں نے بغیر کوئی تفصیل بتائے کہا کہ واشنگٹن نے تہران سے روابط برقرار رکھے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم یورپی یونین کے ذریعے باقاعدہ بلاواسطہ رابطے میں رہے ہیں اس لیے ہم اس سفارت کاری کے مخصوص پہلوؤں پر بات نہیں کریں گے سوائے یہ کہنے کے کہ یورپی یونین کے اینرک مورا نے روابط قائم کرنے کے درمیان اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایرانیوں کی طرف سے تعمیری جواب کے منتظر ہیں، ایسا جواب جو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے لیے غیر ضروری مسائل سے ہٹ کر ہو، ان کا یہ بیان تہران کی جانب سے کچھ نئے مطالبات کے حوالے سے تھا جس میں اس کی سپاہ پاسداران انقلاب سے پابندیاں ہٹانا بھی شامل ہے۔
جب ترجمان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا ایرانی اس یقین دہانی کا مطالبہ کررہے ہیں کہ مستقبل میں امریکی انتظامیہ دوسرے معاہدے کو بھی منسوخ نہیں کرے گی، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اس بات پر ہم نے ایرانیوں کو بالکل واضح کر دیا ہے کہ ہمارا ارادہ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کی تعمیل کے لیے باہمی واپسی پر اثر انداز ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اس معاہدے پر اس وقت تک قائم رہے گا جب تک ایران اس کی پاسداری کرے گا کیونکہ اس کے سوا ہمارا کوئی مقصد نہیں ہو گا کہ ہم جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کی تعمیل کی طرف باہمی واپسی کرسکیں۔



