کراچی سندھ حکومت کی شاہانہ زندگی کا ضامن
زراعت سے ادا ہونے والا ٹیکس اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہے
کراچی نہیں تو سندھ حکومت کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہے گی
کراچی کے بلدیاتی ادارے سندھ بھر کے زراعت ٹیکس سے زیادہ فنڈز جمع کرلیتے ہیں
کراچی(رپورٹ: فرقان فاروقی)حکومت سندھ، کراچی وشہری علاقوں کو نظر انداز کرنے میں کسر نہیں چھوڑ رہی تو دوسری جانب کراچی اور شہری سندھ نہ ہوں تو سندھ حکومت زمیں بوس ہو جائے گی، کہا جاتا ہے کہ دیہی سندھ سے زراعت پر لگایا جانے والا ٹیکس ادا ہورہا ہے جس سے سندھ خاطر خواہ فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ حقائق اس کے بالکل منافی ہیں ایگریکلچر سے وصول ہونے والا ٹیکس انتہائی کم ہے ٹارگیٹ اربوں کا دستاویزات میں لکھ دیا جاتا ہے جبکہ وصولی نہ ہونے کے برابر ہے اس کیلئے سندھ کی بجٹ بک سارے راز افشا کر دے گی، گزشتہ برس ایگریکلچر ٹیکس کی مد میں محض 52 کروڑ روپے وصول کیا گیا جو کراچی کے بلدیاتی اداروں کے آؤٹ ڈور ایڈورٹائزمنٹ سے بھی کم ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ کرپشن کا رحجان انتہائث زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود ضلعی بلدیات اربوں روپے آؤٹ ڈور ایڈورٹائزمنٹ سے وصول کر لیتی ہیں ایک اور جائزہ لیا جائے تو کراچی سے صرف ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر 61 کروڑ روپے چالان کی مد میں جمع ہوجاتے ہیں اب دوبارہ زراعتی ٹیکس کی طرف توجہ دیجائے تو ایگریکلچر سے تین ٹیکس لئے جاتے ہیں کاٹن فیس کیلئے 22 کروڑ، ایگریکلچر انکم ٹیکس 1 ارب 20 کروڑ روپے اور لینڈ ریونیو ٹیکس کی مد میں 10 کروڑ 40 لاکھ روپے مختص کئے جاتے ہیں مجموعی طور پر ایک ارب 52 کروڑ 40 لاکھ روپے وصول کئے گئے جبکہ باقی شہری سندھ نے 241 ارب 36 کروڑ روپے ٹیکس ادا کیا جو صرف سندھ کے خزانے میں گیا،جبکہ وفاق کو جانے والاٹیکس اس کے علاوہ ہے، شہری سندھ سندھ کے بجٹ میں 98.9 فیصد اور دیہی سندھ 1.1 فیصد سندھ کے خزانے میں جمع کروا رہے ہیں لیکن ان حقائق کے باوجود شہر میں بسنے والے شہری وبلدیاتی خدمات سے محروم بنادئیے گئے ہیں جبکہ سندھ کا خزانہ بتا رہا ہے کہ کراچی اور شہری سندھ ٹیکس جمع نہ کروائیں تو سندھ زمیں بوس ہو جائے گا، مشکلات کے اس سفر میں جب لینے کی بات ہو تو کراچی ہمارا سب کچھ ہے کے راگ الاپ دئیے جاتے ہیں اور جب دینے کی بات ہو تو لسانی رنگ نمایاں ہو جاتا ہے، ایسا کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن نا انصافیوں کی رقم کی گئی داستانوں پر آواز اٹھانے کے بجائے محض رسمی بیانات تک بات رکھی جاتی ہے جس سے مسائل دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں شہری سندھ کو ہرسال ترقیاتی مد میں سو ارب روپے بھی مل جائیں تو یہ ٹیکس کی شرح مزید بڑھ جائے گی، انفراسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے شہری سندھ میں کاروبار کم ہوتے جارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو ٹیکس مزید بڑھ سکتا ہے منجمند ہوگیا ہے لیکن پھر بھی شہری سندھ کی وجہ سے حکومت سندھ شاہانہ طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہے، مقتدر حلقے حقائق کا جائزہ لیں تو زیادتیوں نمایاں دکھائی دیں گی، سندھ کے شہری علاقے صرف شہری وبلدیاتی سہولیات مانگ رہے ہیں دیگر حق تلفیاں وہ کسی نہ کسی طرح برداشت کر رہے ہیں اگر ایسا ہی چلتا رہتا ہے تو شہری سندھ کھنڈرات میں تبدیل ہونے کے بعد نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے کیونکہ حقائق سے منہ چھپانا اب کسی طور بھی مناسب نہیں ہوگا.



