
بحران زدہ سری لنکن حکومت کی جانب سے منگل 12 اپریل کو 51 بلین ڈالر کے بیرونی قرضوں کے مقروض ہونے کا بیان سامنے آیا، جہاں کمر توڑ مہنگائی کے ساتھ ساتھ سری لنکا کو خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ سوا دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس ملک کو انڈیا نے سری لنکا کے اقتصادی اور توانائی کے بحران سے نمٹنے اور ایندھن، خوراک اور ادویات کی خریداری کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ کی مالی امداد فراہم کی ہے۔
سری لنکن وزارت خزانہ کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ “حکومت ہنگامی اقدام صرف آخری حربے کے طور پر اٹھا رہی ہے تاکہ ملک کی مالی حالت کو مزید خراب ہونے سے روکا جا سکے۔
گذشتہ ہفتے سری لنکا کے اپنے 3 روزہ دورے کے دوران انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے سری لنکا کی حکومت کو انڈیا کی جانب سے امداد جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔ انھوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے بھی انڈیا کی جانب سے تعاون جاری رکھنے کا یقین دلایا۔ جے شنکر نے اپنے دورے کے دوران سری لنکا کے وزیر خزانہ باسِل راجا پاکسے سے بھی بات چیت کی۔ باسِل راجا پاکسے اقتصادی بحران سے نمٹنے کے اقدامات پر انڈیا کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ لیکن چار اپریل کو خبر آئی کہ صدر گوٹابایا راجا پاکسے نے اپنے بھائی اور وزیر خزانہ باسِل راجا پاکسے کو برطرف کر دیا ہے۔
سری لنکا سے متعدد رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ سری لنکا نے ایک ارب ڈالر کا مزید قرض مانگا ہے۔ اس سے قبل عوام میں بے چینی اور بڑے پیمانے پر مظاہروں کے پیش نظر سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجا پاکسے نے جمعہ کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
صورت حال یہاں تک کیسے پہنچی؟
واضح رہے کہ کووڈ 19 کی وبا سری لنکا کی سنگین معاشی حالت کے لیے ذمہ دار ہے کیونکہ اس نے اس کی سیاحت کے شعبے پر شدید اثر ڈالا ہے۔ ساتھ ہی کئی ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ حکومت کی بدانتظامی اور مسلسل قرضے لینے کی وجہ سے اتنی بری صورت حال پیدا ہوئی ہے۔
سری لنکا نے زرمبادلہ بچانے کے لیے مارچ سنہ 2020 میں درآمدات پر پابندی عائد کی تھی اور اس کے ذریعے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 51 ارب ڈالر کی بچت کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی حالیہ دنوں میں سری لنکا میں ڈیزل کی قلت کے باعث کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ملک کے کئی شہروں میں مظاہرے ہوچکے ہیں لیکن اس دوران کسی بڑے لیڈر کے خلاف مظاہرہ نظر نہیں آیا۔
حکام اور میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کو ملک کے تمام پیٹرول پمپس پر ڈیزل دستیاب نہیں تھا۔ ملک کی سرکاری پاور کمپنی نے کہا تھا کہ وہ جمعرات سے 13 گھنٹے کے لیے بجلی کی لوڈشیڈنگ کرنے جا رہی ہے کیونکہ اس کے پاس جنریٹروں کے لیے ڈیزل نہیں ہے اور یہ تاریخ میں سب سے طویل بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہونے جا رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ بھی ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ زیادہ تر بسوں اور کمرشل گاڑیوں میں ڈیزل ہی ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو کہ ملک میں نہیں ہے۔
وزیر ٹرانسپورٹ دلام امونوگاما کا کہنا ہے کہ ’ہم گیراج میں کھڑی بسوں سے تیل نکال رہے ہیں تاکہ اس کا چلنے والی بسوں میں استعمال کیا جا سکے۔‘
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سری لنکا میں بے روزگاری اور معاشی بحران میں شدت آنے کے بعد سے وہاں کے تامل بولنے والے شہری ایک بار پھر انڈیاکا رخ کر رہے ہیں۔



