سری لنکا میں معاشی بحران پر عوامی احتجاج، کرفیو نافذ

سری لنکا میں معاشی بحران پر عوامی احتجاج، کرفیو نافذ
ملک میں جاری معاشی بحران کے سبب ایندھن اور دیگر اشیا کی قلت کو دیکھتے ہوئے سری لنکا کی حکومت نے ہفتے کے روز کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ کرفیو ایک ایسے موقع پر نافذ کیا گیا ہے جب سینکڑوں وکلا نے صدر گوتابایا راجا پاکسے پر زور دیا کہ وہ ملک میں حالیہ بدامنی کے بعد متعارف کرائی گئی ایمرجنسی کو منسوخ کریں۔

محکمہ اطلاعات نے کہا کہ ملک بھر میں کرفیو ہفتے کی شام 6 بجے سے پیر کی صبح 6 بجے تک جاری رہے گا۔

‎صدر راجا پاکسے نے جمعہ کو ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا جس سے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا خدشہ پیدا ہوا تھا، ماضی میں ہنگامی اختیارات نے فوج کو بغیر وارنٹ کے مشتبہ افراد کو گرفتار اور حراست میں لینے کے اختیارات دیے تھے لیکن موجودہ اختیارات کی شرائط ابھی واضح نہیں ہیں۔

2کروڑ 20لاکھ آبادی پر مشتمل سری لنکا کو اس وقت دن میں 13 گھنٹے تک بجلی کی بندش کا سامنا ہے کیونکہ حکومت ایندھن اور دیگر ضروری درآمدات کی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ کی کمی کا سامنا ہے۔

کولمبو کے رہائشی 68 سالہ دکاندار نشان آریاپالا نے رائٹرز ٹی وی کو بتایا کہ جب چیزیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں تو لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں، جب لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ملک کے سیاسی رہنماؤں کو سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہیے۔

راجا پکسے نے کہا کہ امن عامہ کے تحفظ اور ضروری سامان اور سروسز کو برقرار رکھنے کے لیے ہنگامی حالت کے نفاذ کی ضرورت تھی۔

ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کی قلت پر مشتعل سیکڑوں مظاہرین کی راجا پکسے کی رہائش گاہ کے باہر پولیس اور فوج کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور ان مظاہرین نے سری لنکن صدر کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور جمعرات کو پولیس اور فوج کی متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کردیا تھا۔

پولیس نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے جمعے کو کولمبو اور اس کے گردونواح میں کرفیو نافذ کر کے 53 افراد کو گرفتار کر لیا تھا، ہفتہ کو دکانیں کھل گئی تھیں اور ٹریفک معمول پر رہی جبکہ کچھ پیٹرول اسٹیشنوں پر پولیس تعینات رہی۔

سری لنکا کی بار ایسوسی ایشن کے اراکین نے اپنی اپیل میں کہا کہ حکومت عوام کی امنگوں کو سمجھنے اور ملک کے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کا احترام کیا جائے۔

سری لنکا میں امریکی سفیر جولی چنگ نے ہنگامی حالت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ میں کہا کہ سری لنکا کو پرامن احتجاج کرنے کا حق ہے اور جمہوری طریقوں کے اظہار کے لیے یہ ضروری ہے، میں صورتحال کو قریب سے دیکھ رہی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آنے والے دنوں میں تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔

غیر ملکی کرنسی کی شدید قلت کو اجاگر کرتے ہوئے ساڑھے 5ہزار میٹرک ٹن کھانا پکانے والی گیس لے جانے والے جہاز کو سری لنکا کے پانیوں سے نکلنا پڑا کیونکہ اس کا آرڈر دینے والی لاف گیس کمپنی اس کی ادائیگی کے لیے مقامی بینکوں سے 49لاکھ ڈالرز حاصل نہیں کر سکی۔

لاف گیس کے چیئرمین ڈبلیو ایچ کے ویگا پتیا نے رائٹرز کو بتایا کہ لوگ کھانا پکانے والی گیس کی شدید قلت کا سامنا ہے لیکن اگر ڈالر نہیں ہوں گے تو ہم ان کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم پھنس گئے ہیں۔

جاری بحران کو سابقہ حکومتوں کی معاشی بدانتظامی کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے اور کووڈ۔19 کے دوران یہ صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی تھی کیونکہ اس وبائی مرض نے ملک کی سیاحت اور ترسیلات زر کو متاثر کیا تھا۔

2019 میں شاندار فتح کی بدولت اقتدار میں آنے والے راجا پکسے کی سیاسی مقبولیت میں حالیہ بحران کی وجہ سے نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

حکومت نے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ پیکج کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور چین سے قرضوں کے حصول کے لیے بھی کوشاں ہیں۔

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet