کرپشن کراچی کے شہری مسائل کو حل کرنے میں رکاوٹ بن گئی
ماضی میں اربوں روپے خرچ ہوئے لیکن انفراسٹرکچر پھر بھی سدھر نہ سکا
ترقیاتی کاموں پر کمیشن کی مد میں لوٹی جانے والی رقم کے بعد لیپاپوتی ہی ہوسکتی ہے
بلدیاتی سطح پر2010 کے بعد کراچی میگا پروجیکٹس سے بھی محروم ہے
کراچی (خصوصی رپورٹ) کراچی بلدیاتی مسائل کے حوالے سے ملک کی تاریخ میں بدترین دور سے گزر رہا ہے 2010 تک کراچی نسبتًا بہتر بلدیاتی سہولیات سے آراستہ تھا، جنرل پرویز مشرف کے بنائے بلدیاتی سیٹ اپ کی وجہ سےکراچی کو ترقی یافتہ شہروں کی فہرست میں جگہ ملنا شروع ہو گئی تھی، لیکن اس کے باوجود سن 2001 سے سن 2010 تک دس سال میں کئی اعدادوشمار سامنے آئے کہ کراچی میں اتنے ارب روپے لگے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان دس سالوں میں شہر کو کم ازکم چار سو ارب روپے خرچ کرنے کو ملے، اگر کراچی کے محل وقوع کا جائزہ لیا جائے تو دو سوارب روپے سے شہر کا زمینی انفرااسٹرکچر یعنی پانی و سیوریج کی صورتحال کو سو سالوں کیلئے بہتر ہو جانا چاہیئے تھا اور ماضی کے ریکارڈ اٹھا کر دیکھے جائیں تو اسوقت کی شہری و ٹاؤن حکومتوں نے اس سے بھی زائد زمینی انفرااسٹرکچر کی بہتری کیلئے خرچ کرنے کے دعوے کئے ہیں ایسا ہوا تھا تو آج شہر کا پانی و سیوریج کا انفراسٹرکچر تباہ کیوں ہو گیا؟ اصولی اور تکنیکی اعتبار سے ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا کراچی کی تباہی کی داستان سن 2001 کے بعد ہی رکھ دی گئی تھی بظاہر ترقیاتی کام سر انجام دئیے گئے مگر ان میں تکنیکی مہارتوں کا خیال کھڈے لائین لگا رہا کرپٹ افسران نے بلدیاتی نمائندگان کے ساتھ ملکر ترقیاتی کام ضرور کروائے مگر ان میں خاص مہارت کے ذریعے تکنیکی خصوصیات سائیڈ لائین لگا دی گئیں، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو سو سال تک کراچی کا زمینی انفراسٹرکچر بہتر ہو جاتا اور کرپٹ افسران کو آئندہ رقم بٹورنے کے مواقع ناپید ہو جاتے، کراچی کے ساتھ مخلص ہونے کا دعوی کرنے والے ہی اسکی تباہی کی بنیاد بنے بلدیاتی اداروں نے خواہ اس میں افسران شامل ہوں یا منتخب نمائندے کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہیں اور اسے لوٹنے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مرحلہ وار یہ سلسلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کوئ کام ایک لاکھ روپے کا ہونا ہے تو اس میں سے 60 سے 70 فیصد کمیشنز کی مد میں چلا جاتا ہے تو پھر کراچی میں معیاری کام کیسے ہو؟ جعلی کاموں کی مد میں رقم بٹورنا اب ایک عام سی بات ہے، پوچھ تاچھ کا نظام دم توڑ چکا ہے ایک جگہ پھنسنے والا دوسری جگہ سے نکلنے کے راستے بھی پہلے ہی ڈھونڈ لیتا ہے، کراچی کی تباہی میں ہر ایک اپنا کردار ادا کرتا نظر آئیگا، کراچی آپریشن نے کراچی کو امن وامان کا گہوارہ بنا دیا ہے مگر کرپٹ مافیا کھلے عام شہر کو تباہ در تباہ کرنے کے درپے ہے، بلدیاتی و شہری اداروں کے افسران سے بھی پوچھنا پڑے گا کہ آپکی سرکاری تنخواہ ایک لاکھ بھی نہیں ہے مگر آپکا محل کروڑوں کا کیسے؟ جو گاڑیاں آپ استعمال کر رہے ہیں انکی مالیت بھی کروڑوں میں ہے کیسے؟ تنخواہ ایک لاکھ ہے مگر ماہانہ خرچہ دس لاکھ سے زائد کیوں؟ جب یہ خبر گیری ہوگی اور اس پر کاروائی ہوگی تو کراچی کے مسائل بھی حل ہونگے اور کرپٹ عناصر کی بیخ کنی بھی ورنہ جیسا چل رہا ہے ویسا چلتا رہیگا، شہری زیادہ سے زیادہ احتجاج کریں گے اور پھر خاموشی اختیار کر کے اپنی قسمت کو کوستے رہیں گے کیونکہ موجودہ صورتحال میں کراچی کا مستقبل کراچی سے مالی مفادات حاصل کرنے والوں کے ہاتھ میں ہے.



