کلورینیشن کے بغیر پانی کی فراہمی شہریوں کی جان کیلئے خطرہ ہے
فراہم کردہ پانی میں کلورینیشن نہ ہونے کی وجہ سے نگلیریا سے ہلاکتیں ہو چکی ہیں
کراچی(رپورٹ: فرقان فاروقی)واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایم ڈی، چیف انجنئیرز و دیگر تکنیکی افسران کی غفلت نے شہر کو اضطرابی کیفیت کا شکار کر دیا ہے،پانی میں کلورینیشن نہ ہونے کی وجہ سے نگلیریا کے خدشات بڑھ رہے ہیں ماضی میں کلورینیشن نہ ہونے کی وجہ سے نگلیریا فاؤلری (برین ایٹنگ امیبا) کا شکار ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور واٹر بورڈ چین کی بانسری بجا رہا ہے گزشتہ پانچ سالوں میں نگلیریا وقتا فوقتا سر اٹھاتا رہا ہے اور جب کوئ موت واقع ہوتی ہے تو واٹر بورڈ شہر میں فراہم کردہ پانی کے نمونے جانچنا شروع کر دیتا ہے جب تک ان نمونوں کے لیبارٹری نتائج سامنے آتے ہیں اسوقت تک نگلیریا کی وجہ سے مزید ہلاکتیں ہو جاتی ہیں، واٹر بورڈ میں تعینات افسران اسقدر نا اہل ہیں کہ انہیں یہ تک معلوم نہیں ہے کہ پانی میں کلورینیشن کی کیا اہمیت ہے، کلورینیٹیڈ پانی کئ موذی جرثوموں کو ہلاک کرتا ہے مگر کراچی کے پانی میں کلورینیشن کے عمل کا نہ ہونا اچھی خبر نہیں ہے نگلیریا فاؤلری نامی جرثومہ اسی وقت پانی میں تخلیق پاتا ہے جب شہریوں کو فراہم کردہ پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار شامل نہ کی جائے یا سرے سے کلورینیشن ہی نہ ہو، شہریوں کیلئے صرف یہ ہی اچھی خبر ہے کہ نگلیریاپانی پینے سے نہیں پھیلتا لیکن پاکیزگی کا خیال رکھنے والے اور بالخصوص نمازی حضرات کیلئے یہ بری خبر ہے کہ یہ ناک کے ذریعے دماغ تک پہنچتا ہے جبکہ باقاعدہ سوئمنگ کرنے والوں کو بھی ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ سوئمنگ کے پانی کا کلورینیٹیڈ ہونا بیحد ضروری ہے، نگلیریا فاؤلری نامی امیبا ناک کے ذریعے دماغ تک پہنچکر دماغ چاٹنا شروع کر دیتا ہے اور چند ہی دنوں میں جراثیم کا شکار مریض جہان فانی سے کوچ کر جاتا ہے، اس مرض کا علاج فی الوقت بیحد مشکل ہے لیکن احتیاطی تدابیر کے ذریعے ہی اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، کراچی کو پانی فراہم کرنے والا ادارہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار ادا کرنے کی کنجی ہے، لاپرواہی اور کرپشن در کرپشن کی وجہ سے پانی میں کلورینیشن کو ضروری اہمیت دینے کے بجائے جزوی اہمیت دینے کی وجہ سے ہر سال نگلیریا کی آمد ہو جاتی ہے جو کہ تشویشناک امر ہے، پانی میں کلورینیشن کیلئے کروڑوں روپے کا فنڈز دیا جاتا ہے جس سے باآسانی پانی میں کلورینیشن کی جا سکتی ہے مگر اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت برتی جاتی ہے سارے سال پانی فراہم کیا جاتا رہتا ہے اور جیسے ہی نگلیریا کے مریض سامنے آتے ہیں تو کراچی کے علاقوں سے پانی کے نمونوں کو لیبارٹری بھیج کر چیک کیا جاتا ہے کہ کہاں کہاں پانی میں کلورینیشن سمیت موذی جراثیم کی موجودگی ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ واٹر بورڈ کو اس بات پر اعتماد ہی نہیں ہے کہ جو پانی وہ فراہم کر رہے ہیں اس میں کیا کیا مسائل ہیں؟ مسائل در مسائل میں الجھے شہری اپنے شہری اداروں سے یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ جب ان مسائل کے سائیڈ ایفیکٹس انکے اپنے گھروں تک پہنچیں گے تو تب وہ مسائل حل کرینگے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے ساتھ ہی ضروری ہے کہ کراچی کے سوئمنگ پولز کے پانی کے معیار کو چیک کرے جو سوئمنگ پولز کلورینیٹیڈ واٹر کے بغیر ہوں ان کے خلاف کاروائ عمل میں لائ جائے.



