نیم کے بغیر شجرکاری مہم کے موثر نتائج برآمد ہوسکتے
کونو کارپس پابندی کے باوجود نجی پودوں کی نرسریوں میں پایا جاتا ہے
کراچی(رپورٹ: فرقان فاروقی)کراچی میں شجر کاری مہم کسی نہ کسی سطح پر جاری رہتی ہے جس میں مختلف نوعیت کے پودے لگائے جاتے ہیں لیکن اس میں نیم کے
درختوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے دیگر ماحول دوست اور پھلدار پودوں کو لگانے کا رحجان بھی کم ہے ساری دنیا واقف ہے کہ نیم سے بہترین کوئی اینٹی سیپٹک درخت نہیں،کراچی جہاں حشرات الارض کی وجہ سے مختلف بیماریوں کی لپیٹ میں رہتا ہے خاص طور پر ڈینگی کے پھیلنے کی وجہ سے یہاں ہر سال اموات ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود ضلعی بلدیات ودیگر سرکاری ونجی ادارےشجر کاری مہم میں دیگر درختوں کی افزائش پر توجہ دے رہی ہیں جبکہ نیم کے درختوں کی بڑھتی ضرورت کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے، کراچی میں بدلتے موسم اور مختلف نوعیت کی بیماریوں نے مسائل پیدا کر رکھے ہیں جس کا تدارک کرنے کیلئے ایک ایسی حکمت عملی تیار کرنا ضروری ہوگئی ہے جس کے اثرات دیرپا ہوں اور جو درخت لگائے جائیں انکے پنپنے کے مواقع بہت زیادہ ہوں نیم ایک ایسا درخت ہے جو پنپنے میں وقت ضرور لیتا ہے مگر ایک مرتبہ اس کی افزائش پر توجہ دے دیجائے تو اسے تناور درخت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا دوسری جانب یہ ماحول کے مضر ترین اثرات اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا ہے، ضلعی بلدیات کے محکمہ باغات میں اسوقت جو افسران تعینات ہیں وہ ہریالی سے متعلق کم معلومات کے حامل ہیں جس کی وجہ سے ہریالی کے فروغ کیلئے کوئی موثر اسکیم تاحال متعارف نہیں کروائی جا سکی ہے، سابق کمشنر کراچی شعیب صدیقی نے شہر میں کونو کارپس نامی پودوں کے لگانے کے ساتھ اس کی خریدوفروخت پر مکمل پابندی عائد کر رکھی تھی لیکن اب اس پابندی پر اطلاق ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے، کراچی کے بلدیاتی اداروں نے بھی کونو کارپس کے مضر اثرات کو دیکھتے ہوئے،کونو کارپس کو لگانے پر پابندی عائد کی تھی مگر نجی نرسریوں میں کونو کارپس آج بھی خریدا اور بیچا جا رہا ہے اور اطلاعات کے مطابق ضلعی بلدیات ان کو معاونت فراہم کر رہی ہیں،موجودہ کمشنر کراچی اقبال میمن کو فوری طور پر اس جانب توجہ دیکر لگائی گئی پابندی پر عمل درآمد کروانا ہوگا اور اسکا دائرہ کار نجی نرسریوں تک بھی بڑھانا ہو گا جو پابندی کے اطلاق کے باوجود حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں جبکہ کمشنر کراچی یا ایڈمنسٹریٹر کراچی کی جانب سے واضح احکامات جاری کئے جانے چاہیئں جس میں دیگر پودوں کے ساتھ نیم کے پودوں کو بھی شجرکاری کا حصہ بنایا جائے.



