موسمی تغیرات نے دنیا بدل ڈالی سمندروں میں بھی تیزی سے تغیرات رونما ہو رہے ہیں

موسمی تغیرات نے دنیا بدل ڈالی

سمندروں میں بھی تیزی سے تغیرات رونما ہو رہے ہیں

کراچی(رپورٹ: فرقان فاروقی)دنیا میں موسموں کی تبدیلیاں معمول بنتی جا رہی ہیں، سونامی جیسے واقعات یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ سمندروں میں بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جو کہ انسانی حیات کیلئے شدید خطرات لئے ہوئے ہیں اسی طرح جس تیزی سے ہریالی کوختم کرنے کے ساتھ پاکستان کے پہاڑی سلسلے میں توڑ پھوڑ کیجا رہی ہے جو قدرتی وسائل سے سنگین چھیڑ چھاڑ ہے، درخت اور پہاڑ زمین کو باندھ کر رکھتے ہیں جس سے زلزلے کے خدشات میں کافی حد تک کمی ہو جاتی ہے جب درخت اور پہاڑ کٹتے رہیں گے تو زمینی بانڈنگ کے قدرتی ذرائع کی عدم موجودگی میں زلزلوں کی روک تھام کرنا مشکل ترین امر ہوگا، اسی طرح سمندروں میں بغیر واٹر ٹریٹمنٹ کے مضر اجزاء سمندر برد کئے جا رہے ہیں جو سمندر کے درجہ حرارت بڑھانے میں مصروف ہیں جسکا خمیازہ زمین کو بسنے والے سونامی کی صورت میں بھگت چکے ہیں اور اگر سمندروں میں داخل ہونے والے میٹیریلز کو کنٹرول نہیں کیا گیا تو خدانخواستہ ایک اور سونامی ہمارا منتظر تو نہیں؟ اس سلسلے میں جرمنی میں جی اے ایچ سی (geo amar helmotz centre) نے سمندروں میں بڑھتی آلودگی کے حوالے سے تحقیق کی ہے اور رپورٹ پیش کی ہے کہ سمندروں کے درجہ حرارت میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے،سمندروں میں آکسیجن لیول کی چیکنگ کے دوران یہ بات سامنے آئ ہے کہ سمندروں میں آکسیجن لیول گر رہا ہے جس سے انکے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، مزید یہ کہ گزشتہ پچاس سالوں میں آکسیجن لیول میں تیزی سے کمی آئ ہے، آکسیجن لیول کی کمی کی وجہ سے سمندروں میں تغیرات پیدا ہو رہے ہیں جو سمندری حیات کے ساتھ زمینی حیات کیلئے شدید خطرات لئے ہوئے ہے، دنیا کا تقریبا 71 فیصد حصہ سمندر پر مشتمل ہے لہذا سمندر میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے، سمندر میں آکسیجن کی کمی کی وجہ مختلف نوعیت کی کھادیں، تیل پلاسٹک اشیاء، ان ٹریٹیڈ سیوریج میٹیریل و دیگر اشیاء کو قرار دیا گیا ہے جس سے سمندر میں نائٹروجن کی مقدار بڑھ رہی ہے جو آکسیجن کی مقدار کم کر کے سمندر کے ابال کو بڑھا رہی ہے اور یہ ہی وہ خطرناک صورتحال ہے جو سمندر کو بپھرنے پر مجبور کر سکتی ہے اور اگر انکو کنٹرول کرنے کے اقدامات نہیں کئے گئے تو سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں، کراچی میں سمندر کے ساتھ شدید زیادتی ہو رہی ہے کراچی کے ٹریٹمنٹ پلانٹس ناکارہ ہیں جس کی وجہ سے ان ٹریٹیڈ سیوریج میٹیریل سمندر برد ہو رہا ہے اسی طرح پلاسٹک کی اشیاء کا سمندر برد ہو جانا کوئ بات ہی نہیں ہے سمندر میں سیاہی کا عنصر یہ ظاہر کرتا ہے کہ سمندر میں تیل نما اشیاء بھی شامل ہو رہی ہیں، کراچی میں سمندر کو بپھرنے سے روکنے کیلئے فوری طور پر کراچی کے چاروں ٹریٹمنٹ پلانٹس جو کہ واٹر بورڈ کے زیر انتظام
ہیں فعال بنانا ہو گا تاکہ سمندر میں خطرناک فضلہ جانے سے روکا جا سکے دوسری جانب سمندر میں پلاسٹک اشیاء کی روک تھام کو بھی یقینی بنانا ہوگا، اب وقت ہے کہ سمندر جسے بپھرنے کے بعد کنٹرول کرنا انسانی بس کی بات نہیں ہے پہلے ہی خطرناک فضلے کے دخول سے روک کر زمینی و سمندری حیات کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے جس کیلئے حکومتی اور انفرادی سطح پر کوششیں بروئے کار لانی ہونگی

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں