شہر قائد جیسا معاشی انجن بھی کاروباری تباہی کا شکار،

کراچی(رپورٹ: فرقان فاروقی)شہر قائد جیسا معاشی انجن بھی کاروباری تباہی کا شکار، چھوٹے تو چھوٹے بڑے کاروباری حضرات بھی مہنگائ اور بیروزگاری سے تنگ آگئے، کاروباری حضرات کے ساتھ شہری یہ کہتے دکھائ دے رہے ہیں کہ اسی طرح کچھ عرصے اور چلتا رہا تو ممکن ہے کہ پاکستان میں غریب سسک سسک کر مر جائیں اور یہ ملک صرف مراعات یافتہ طبقے تک محدود رہ جائے کیونکہ تبدیلی کے نام پر جو کچھ کیا گیا ہے اب وہ برداشت نہیں ہورہا ہے، سابقہ حکمراں لٹیرے تھے تب بھی پاکستان کا نظام آج سے پہلے اچھا تھا کاروبار کسی نہ کسی طرح چل رہا تھا مزدور طبقہ بھی رو دھو کر ہی صحیح دو وقت کی روٹی حاصل کر لیتا تھا اب بیروزگاری کی وجہ سےخودکشیاں عام سے بات ہوگئ ہے جس کا حکومت پر کوئ اثر نہیں ہوتا گزشتہ تین سالوں میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے قرضے یعنی 30 ارب ڈالر قرضے لینی والی موجودہ حکومت کے وزراء سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آکر پاکستانی قوم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہاں ہے مہنگائ، کہاں ہے بیروزگاری، جس پر 22 کروڑ عوام سر پیٹنے اور دانتوں میں انگلیاں دبا کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ جھوٹ کے واقعی سر پیر نہیں ہوتے، جس حکومت کو پختہ یقین ہے کہ پاکستان میں مہنگائ اور بیروزگاری نہیں ہے اس سے یہ امید لگانا کہ وہ سب ٹھیک کر دے گی عبث ہے، کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے سابقہ سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کوچور لٹیرے قرار دیا ہے لیکن ہمیں موجودہ حکومت کے مقابلے میں وہ فرشتے دکھائ دے رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اس طرح ہمارا خون نہیں چوسا جس طرح موجودہ حکومت ہمارا خون چوس رہی ہے، اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے ساتھ دعا کر رہے ہیں کہ ہمیں کسی طرح ان سے نجات دلائے کیونکہ پاکستان کی بقاکا واحد حل یہ ہی دکھائ دے رہا ہے کہ موجودہ حکومت سے نجات ملے کیونکہ تین سالوں میں اس حکومت نے لارے لپوں اور بدترین معاشی حالات کے کچھ نہیں دیا.

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں