
شاہ سلمان نے 2015 میں مملکت کی باگ ڈور سنبھالی۔ عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے حصول کے لیے ترقیاتی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شاہ سلمان کے دور میں معاشی اصلاحات کے لیے ویژن 2030 پیش کیا گیا تاکہ سعودی عرب کی معیشت کا انحصار تیل کی آمد سے کم کر کے عالمی سرمایہ کاری اور دیگر منصوبوں پر کیا جا سکے۔
دوہزار سترہ میں ثقافت کو فروغ دیتے ہوئے سینما گھروں پر لگی 35 برس پرانی پابندی اٹھا لی گئی۔ ان کے دور میں پہلی بار ریاض میں خواتین کے ڈبلیو ڈبلیو ای کے مقابلے ہوئے۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور میں سفارتی تعلقات میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملی۔
ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے کے بعد اپنا پہلا سرکاری دورہ سعودی عرب کا کیا ، سعودی فرمانروا شاہ سلمان بذات خود صدر ٹرمپ کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔
خواتین کو 2030ویژن کی بدولت ہی ریکارڈ وقت میں آگے بڑھنے کے شاندار مواقع حاصل ہوئے۔ان کے دور میں ہی شہزادی ریما بنت بندر کو 23 فروری 2019ء کو امریکا میں سعودی سفیر تعینات کیا گیا۔ انہیں ملکی تاریخ میں پہلی خاتون سفیر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
سعودی خواتین کو ڈرائیورنگ کی اجازت کے علاوہ پہلی بار مرد کی اجازت کے بغیر پاسپورٹ بنوانے کا اختیار دیا گیا۔
سعودی فرمانروا کی قیادت میں مملکت سے کوڑوں کی سزا کو بھی ختم کرنے کا اعلان ہو چکا جبکہ اب کم عمری کے جرم پر پھانسی کی سزا نہیں دی جائے گی۔
اقوام متحدہ نے سعودی عرب میں شعیہ عالم دین الشیخ باقر النمر سمیت سینتیس افراد کے سر قلم کرنے پر سعودیہ سے انسداد دہشت گردی کے قانون کا جائزہ لینے اور نابالغ افراد کے خلاف سزائے موت کے قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔



