ایم کیوایم پاکستان اور تحریک انصاف کا کراچی میں مستقبل خطرے میں

سیاسی جماعتوں کو خاطر میں لائے بغیر سندھ حکومت نے بلدیاتی ترمیمی بل کو حتمی شکل دے دی
ایجوکیشن اور ہیلتھ کے اہم محکمے بلدیاتی اداروں کی دسترس سے دور
آؤٹ ڈور ایڈورٹائزمنٹ کو بھی آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا گیا
ٹاؤن کونسلز کو پراپرٹی ٹیکس جمع کرنے کا اختیار دیا گیا ہے
پراپرٹی ٹیکس اسوقت سندھ کا محکمہ ایکسائز جمع کر رہا ہے
ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت یہ اختیار بلدیاتی اداروں کو منتقل کرنا ہوگا
پراپرٹی ٹیکس بلدیاتی اداروں کو منتقل ہونا خوش آئند ہوسکتا ہے
مجموعی طور پر اختیارات کے لحاظ سے بلدیاتی ادارے سندھ حکومت کے محتاج ہیں
براہ راست شہری امور میں بلدیاتی ادارے ہاتھ نہیں ڈال سکتے
جو اختیارات دئیے گئے ہیں وہ مانیٹرنگ کی حد تک محدود ہیں
بلدیاتی اداروں کو مستحکم بنانے کا عمل اب بھی ہوا میں معلق ہے
بلدیاتی اداروں کو انتظامی، مالی اختیارات کے حوالے سے اب بھی دشواریوں کا سامنا رہے گا
سیاسی جماعتیں احتجاج کر کے بھی سندھ حکومت کو قائل نہ کرسکیں
سیاسی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف اور ایم کیوایم پاکستان کے منہ پر طمانچہ رسید کیا گیا ہے
دونوں جماعتیں وفاقی اسٹریم میں شامل ہونے کے باوجود بلدیاتی ترمیمی بل کو نہ رکوا سکیں
نہ ہی دونوں پارٹیاں اپنی مرضی کی ترامیم کرا سکیں
سندھ حکومت نے اختیارات کا لولی پاپ دیکر جو کرنا تھا وہ کر ڈالا
سندھ حکومت یا پیپلز پارٹی نے ترمیمی بلدیاتی بل رائج کر کے ون پارٹی شو کا مظاہرہ کر دیا ہے
اس کے بعد سیاسی جماعتیں کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہیں وہ وقت ہی بتائے گا
ایم کیوایم پاکستان اور تحریک انصاف کا کراچی میں مستقبل خطرے میں
سندھ حکومت نے مقامی حکومتیں اپنے کنٹرول میں کرلیں
ترمیمی بلدیاتی بل کے نفاذ کے بعد
شہر میں پیپلز پارٹی کے مئیر کے آنے کی امیدیں بڑھ گئیں
ایم کیوایم پاکستان اور تحریک انصاف نے صورتحال بھانپ لی
دونوں سیاسی جماعتیں بلدیاتی ترمیمی بل پر آواز اٹھانے سے باز نہیں آئیں گی
اب مزید کھل کر بلدیاتی ترمیمی بل پر احتجاج کیا جائے گا
امکان ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی
دونوں یا ایم کیوایم پاکستان بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیں
مہاجر قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کو اس کا فائدہ پہنچ سکتا ہے
لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کا کراچی میں پلڑا بھاری رہنے کا امکان ہے
اس کی اہم وجہ ٹاؤن نظام بنے گا
کراچی میں تیس سے زائد ٹاؤن بننے جارہے ہیں
ٹاؤن کی حدود بندی میں پیپلز پارٹی نے سیاسی چال چل رکھی ہے
ضلعوں کو سیاسی حمایت کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہے
صرف ضلع ملیر میں جو ٹاؤنز قائم کئے جارہے ہیں وہ سارے پیپلز پارٹی کا گڑھ ہیں
ضلع شرقی میں جمشید اور گلزار ہجری ٹاؤنز میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے
اسی طرح کی صورتحال دیگر ضلعوں میں بھی ہے
جو یہ بات واضح کر رہی ہے کہ اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کراچی میں مئیر لانے میں کامیاب ہو جائے گی



