بلدیاتی ترمیمی بل تبدیلیاں لا سکتا ہے

بلدیاتی ترمیمی بل تبدیلیاں لا سکتا ہے

کراچی (رپورٹ: فرقان فاروقی)

سندھ میں عجب قانون ہے، بلدیاتی نمائندوں کو جوتے تلے رکھنے کیلئے قدم اٹھانے سے سندھ حکومت قطعی گریزاں نہیں ہے، لولی پاپس کا لفظ صحافتی زبان نہیں لیکن اس کا استعمال بلدیات کے حوالے سے کیا جائے تو بالکل درست ہوگا، بلدیاتی ترمیمی بل ترمیم در ترمیم کے مراحل کے بعد دوبارہ منظور کر لیا گیا ہے اس میں بلدیاتی نمائندوں کیلئے اب بھی کچھ نہیں کیونکہ جو اختیارات بظاہر انہیں دئیے جارہے ہیں وہ انتظامی نوعیت کے نہیں بلکہ زبانی کلامی نوعیت کے ہونگے واٹر بورڈ اور سندھ سالڈ ویسٹ بورڈ بدستور سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہوگا البتہ مئیر، یا چیئرمین کوئی خامی دیکھے گا تو براہ راست ایکشن لینے کے بجائے سندھ حکومت کو آگاہ کرے گا جس کے بعد سندھ حکومت چاہے تو ایکشن لے اور نہ چاہے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا، وزیراعظم پاکستان عمران خان کا گزشتہ دنوں کا یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے سندھ حکومت کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے بلدیاتی نمائندوں کو انتظامی اختیارات ملنے چاہیئں اس بیان میں اہمیت اس بات کی ہے کہ انہوں نے لفظ سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے استعمال کیا ہے یعنی غالباً وزیراعظم پاکستان کو یہ باآور کروانا پڑ رہا ہے کہ حکومت سندھ کسی خام خیالی میں مبتلا نہ رہے کہ اس نے بادشاہت کا جو نظام سندھ میں قائم کرنے کی کوشش کر رکھی ہے اس سے پاکستان کی وفاقی حکومت استثنی اختیار کرکے ایک طرف ہو جائے گی، سندھ میں بلدیاتی نظام توجہ کا مرکز بنتا جارہا ہے تمام سیاسی جماعتیں اس نظام کے خلاف صف آراء دکھائی دیتی ہیں خاص طور پر کراچی میں کافی عرصے بعد سوائے پیپلز پارٹی کے کوئ بھی سیاسی جماعت ترمیمی بلدیاتی بل کے حق میں نہیں ہے کسی ایک سیاسی جماعت کی بھی سپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی سندھ حکومت میں ہونے کے باوجود تنہائی کا شکار ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اس کا امیج نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بیرون ملک بھی خراب ہورہا ہے، بین الاقوامی سطح پر سندھ کے بلدیاتی نظام میں خامیوں پر بات چیت کی جارہی ہے ایسی صورتحال میں حالات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہے جو منظر نامے میں تبدیلی لا سکتا ہے ممکنہ طور پر بلدیاتی ترمیمی بل ہی وہ تبدیلی کا سبب نہ ہو کیونکہ اب تک ترمیمی بل میں ماسوائے ٹاؤنز کے قیام کے کوئی بھی اچھی چیز نہیں ہے باقی جتنی بھی تبدیلیاں کی گئیں ہیں اس میں سندھ حکومت بلدیاتی نمائندگان پر حاوی رہے گی جسے سیاسی طور پر اس طرح کہا جارہا ہے کہ کسی طور بھی سندھ حکومت بلدیاتی اداروں پر ہلکا ہاتھ رکھنے کو تیار نہیں کیونکہ کرپشن اور طاقت کے جو لوازمات بلدیات میں ہیں وہ کہیں اور میسر نہیں، اگر بلدیاتی ادارے آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 اے کے تحت مستحکم کر دئیے گئے تو سندھ حکومت کا اس میں کردار محدود نوعیت کا ہو کر رہ جائے گا کیونکہ مذکورہ آرٹیکل دوٹوک طریقے سے کہہ رہا ہے کہ صوبے انتظامی، مالی اور سیاسی اختیارات بلدیاتی نمائندگان کو منتقل کر دیں گے انتظامی اور مالی معاملات کا مفہوم یہ ہے کہ شہری ودیہی علاقوں میں جو بھی شہری وبلدیاتی مسائل یاادارے موجود ہیں ان کے اختیارات بلدیاتی نمائندگان کو ہونگے جس میں پولیس ودیگر انتظامی امور بھی شامل ہیں سندھ میں نیا ترمیمی بلدیاتی نظام آئین کے خلاف ہے تو اس کیلئے پہلی جدوجہد وفاق کو کرنی چاہیئے تھی لیکن اس کی خاموشی کئی سوالوں کو جنم دے رہی ہے کیونکہ شواہد کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا جاتا تو چاروں صوبوں میں یکساں نہ صحیح لیکن مضبوط اور عوام کو سہولیات پہنچاتا بلدیاتی نظام قائم ہوتا کیونکہ آئین پاکستان کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی بھی نظام قائم کرے.

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں