وقت کا تقاضا ، آفاق احمد ہی ایسامہاجر پلیٹ فارم ہے جو اردو بولنے والوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں دور کر سکتے ہیں

کراچی (رپورٹ: فرقان فاروقی)
کراچی میں بانی متحدہ قومی موومنٹ کا سورج غروب ہونے کے بعد اردو بولنے والے نا کردہ گناہوں کی سزائیں بھگتنے پر مجبور بنا دئیے گئے ہیں، ایسے میں اردو بولنے والوں کو موجودہ صورتحال میں ایسے سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں سے وہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ممکن بنواسکیں، سابق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی دھڑا بند سیاسی جماعتیں اردو بولنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کروانے میں یکسر ناکام دکھائی دیتی ہیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی موجودہ شکل بھی تیزی سے عوامی پذیرائی کھو رہی ہے جس کی اہم وجہ اردو بولنے والوں کے مسائل کو جز وقتی اہمیت دینا ہے جو تقریبا راہ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے اس صورتحال میں شہر میں کراچی کے شہریوں کی آواز بن کر دو سیاسی پارٹیاں آواز اٹھانے میں مشغول ہیں جس میں جماعت اسلامی کھل کر کراچی اور اردو بولنے والوں کے مسائل پر نہ صرف بات کر رہی ہے بلکہ اس کی عملی جدوجہد بھی دکھائی دے رہی ہے دوسری سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ ہے جس کے چئیرمین آفاق احمد مہاجر قوم پر ہونے والی زیادتیوں سمیت پیپلز پارٹی کے متعصبانہ روئیے کو اجاگر کر رہے ہیں اس کے ساتھ پی ایس پی بھی کافی سرگرم ہے کہ کسی طرح کراچی کو محرومیوں کے اندھیرے سے باہر نکالا جائے، کراچی کے شہری وبلدیاتی اداروں کی حالیہ صورتحال یہ عیاں بھی کر رہی ہےکہ بات اب لسانی نوعیت کی ہے کیونکہ زبان کی بنیاد پر کراچی کے شہری وبلدیاتی اداروں میں قبضہ جمانے کی حکمت عملی تقریبا کامیاب ہوچکی ہے اور تاحال زبان کی بنیاد پر افسران وملازمین کو کھپایا جارہا ہے جن بلدیاتی اداروں میں اردو بولنے والے موجود ہوا کرتے تھے اب وہاں لسانیت کی بنیاد پر افسران تعینات ہوچکے ہیں جو کمیں کمینوں کی طرح اردو بولنے والے ملازمین کے ساتھ سلوک کررہے ہیں،کراچی میں لسانیت کی ہوا ایک مرتبہ پھر چل پڑی ہے جس میں شدید نفرت کا عنصر نمایاں ہے ایسے میں کراچی ایک مرتبہ پھر 1986،87 جیسی ایم کیوایم کی ضرورت کو محسوس کر رہا ہے جس کا نام مہاجر قومی موومنٹ تھا، مہاجر قومی موومنٹ آج بھی ہے فرق اتنا ہے کہ اس کے سربراہ اب آفاق احمد ہیں جو علیحدگی اختیار کرنے کے بعد آج تک مہاجر قوم کیلئے کھڑے ہیں کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ ایک شخص جسے آج تک ووٹ بینک نہیں ملا اور نہ ہی برسر اقتدار رہنے کا موقع لیکن پھر بھی مہاجر قوم کے حقوق کی بات کر رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ مہاجر قوم کو دیوار سے لگانے کے بجائے ان کی اہلیت کے مطابق ہر چیز میں حصہ دیا جائے تو یہ قوم ملک کا دھارا بدل کر رکھ سکتی ہے آفاق احمد کسی دوسری قومیت سے خائف بھی نہیں ہیں اور اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ انہیں دیگر اقوام کا بھی احترام ہے لیکن مہاجروں کو دیوار سے لگانے والوں سے ان کی کوئ دوستی نہیں ہے، ایسی واضح اور مخلصانہ سوچ کو مہاجر قوم کو سمجھنا پڑے گا، الطاف حسین کے بعد واحد آفاق احمد ہی ایساپلیٹ فارم جسے اردو بولنے والے زیادتیوں دور کرنے میں استعمال میں لاسکتے ہیں ورنہ آپشنز کا دور ختم ہوچکا ہے ایک مرتبہ پھر کراچی کے شہریوں کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی اسی تعداد کی ضرورت ہے جس سے بڑی بڑی سیاسی جماعتیں کراچی کا رخ کرنے پر مجبور ہوئیں جیسے ہی یہ تعداد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لحاظ سے کم ہوئ ہے جس کا جتنا زور چل رہا ہے مہاجروں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ ایسا کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اب ان کے ساتھ کھڑے ہونے والے اپنا دم خم کھو چکے ہیں بہتر یہ ہی ہے کہ مہاجر قومی موومنٹ کے پلیٹ فارم کو اسی نہج پر پہنچانے کیلئے اردو بولنے والے ایک مرتبہ پھر کھڑے ہوجائیں ورنہ صورتحال تو پہلے ہی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ “آگے کنواں پیچھے کھائ “



