حکومت نے بھی کراچی کو مال بناؤ سمجھ کر کراچی کے شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا اپنا حق سمجھ لیا
کراچی(رپورٹ: فرقان فاروقی) پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر تنقید کرنے والی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے بھی کراچی کو مال بناؤ سمجھ کر کراچی کے شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا اپنا حق سمجھ لیا، ماضی میں وزیراعظم پاکستان نے دو ٹوک موقف دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایم پی اے اور ایم این فنڈ کیوں دیا جاتا ہے جبکہ ترقیاتی کاموں کی ذمہ داری بلدیاتی اداروں کی ہے فنڈز ملنا ہیں تو بلدیاتی اداروں کو ملنے چاہیئں تاکہ وہ عوام کیلئے اس کو استعمال میں لاسکیں لیکن ایسا تو نہ ہوا البتہ انہوں نے اپنے اراکین قومی اسمبلی کو فی اراکین سولہ کروڑ روپے فنڈ فراہم کئے جس کے عوض انہوں نے اپنی جیبیں گرم کرنے کو ترجیح دی اور اپنے حلقے کے لوگوں کی خدمت کرنے کے بجائے انہوں نے بھی عوام کو مسائل میں ڈبونا زیادہ مناسب سمجھا نہ انہوں نے اپنے حلقے کے عوام کیلئے روڈ بنائے نہ سیوریج یا کسی اور مسائل کو دور کرنے کیلئے اقدامات کئے جس کے نتیجے میں کراچی مزید مسائلستان میں تبدیل ہو کر شہریوں کیلئے مشکلات پیدا کر رہا ہے اربوں روپے اراکین قومی اسمبلی نے بھی ہڑپ لئے ہیں جس کی چھان بین سے تحریک انصاف سیاسی سطح پر بھی گریز کر رہی ہے، کراچی کو ہر سطح پر لوٹ کا مار سمجھ کر نوچنے کی حکمت عملی کے تحت کاروائ جاری ہے جس سے کراچی کے شہریوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ احساس محرومی اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ کسی پر بھی بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، تحریک انصاف سے ان کی آخری امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں کیونکہ ان کے اراکین قومی اسمبلی نے بھی لیپا پوتی کرکے کروڑوں روپے ہضم کر لئے ہیں، تحریک انصاف سے کراچی کے شہریوں کو یہ امید تھی کہ وہ کراچی کی حالیہ صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے کراچی میں سوک سروسز ایمرجنسی نافذ کر کے ایک مخصوص مدت میں مسائل وفاقی اور صوبائ سطح پر دور کرنے کی کوشش کرے گا لیکن نتائج بالکل برعکس برآمد ہو رہے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ کراچی اسوقت بے یارومددگار شہروں کی فہرست میں ٹاپ آف دی لسٹ آچکا ہے جس کو لوٹنا کھسوٹنا آسان اور اسے مسائل سے باہر نکالنا دشوار ترین کام ہو چکا ہے کراچی کے شہری جس جانب نظریں جماتے ہیں کہ فلاں ان کے مسائل حل کرے گا لیکن نتائج ہمیشہ برعکس برآمد ہوتے ہیں کراچی کے صبروتحمل کی بھی حدیں پار ہو چکی ہیں تمام تر تعصبات وفرقہ واریت سے آزاد ہو کر دیکھا جائے تو کراچی کی آواز بن کر سب سے اہم کردار جو پارٹی ادا کر رہی ہے وہ جماعت اسلامی ہے جو کسی نہ کسی مسئلے پر آواز اٹھانے میں مشغول ہے چاہے اس کی آواز سنی یا ان سنی کردی جائے لیکن وہ کراچی کے ان دکھتی رگ نما مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ احتجاج کر رہی ہے جو کراچی کی ترجمانی کے مترادف ہے اور ماضی بھی گواہ ہے کہ جماعت اسلامی کو دو مرتبہ کراچی کی مئیر شپ اور ایک مرتبہ کراچی کی نظامت ملی جس میں کراچی نے ترقی کی منازل طے کیں ممکن ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں کراچی کے لئے کچھ نہ کرنے کی بنیاد پر ایک طرف ہو جائیں اور کارکردگی کی بنیاد پر کراچی کے شہری ایک مرتبہ پھر جماعت اسلامی پر بھروسہ کرنے پر مجبور ہوں کیونکہ دیگر راستے مسدود ہو چکے ہیں.



