ایڈمنسٹریٹر میٹرو پولیٹن کارپوریشن کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے چند گھنٹوں میں ہی جاری آڈر کا حکم نامہ کینسل کر دیا گیا

 سیاسی ایڈمنسٹریٹر میٹرو پولیٹن کارپوریشن کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے چند گھنٹوں میں ہی جاری آڈر کا حکم نامہ کینسل کر دیا گیا

کراچی (رپورٹ: فرقان فاروقی)پیپلز پارٹی کے جیالے ایڈمنسٹریٹر میٹرو پولیٹن کارپوریشن کراچی کی آمد کے بعد وہ ہی طریقہ کار اختیار کیا جانے لگاجو ایم کیوایم پاکستان اختیار کرتی رہی ہے، ایڈمنسٹریٹر تعینات ہونے کے پہلے ہی دن سابق ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد کی افسران کی ٹیم مرحلہ وار فارغ کی جانے لگی، مرتضی وہاب نے آتے ہی ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈریکریشن آفاق مرزا کو ہٹا دیا ہے جبکہ ایڈمنسٹریٹر نے اپنے سیکریٹری کے حکمنامے کو جاری کروانے کے بعد منسوخ کر دیا ہے گزشتہ روز سیکریٹری ایڈمنسٹریٹر ظفرحسین کو ہٹا کر ان کی جگہ انصار صدیقی کو سیکریٹری ٹو ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا گیا تھا لیکن چند گھنٹے گزرنے کے بعد مرتضی وہاب نے میٹروپولیٹن کمشنر دانش سعید کو ہدایت کی کہ اس حکمنامے کو منسوخ کردیا جائے جس پر ورکنگ ڈے نہ ہونے کے باوجود پچھلی تاریخ میں حکمنامے کو منسوخ کر دیا گیا ہے، ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی مرتضی وہاب کے اس قسم کے فیصلے یہ عیاں کر رہے ہیں کہ وہ ایڈمنسٹریٹر تعینات ضرور ہوگئے ہیں لیکن رٹ ان کے بجائے کسی اور کی چلے گی اور اس عمل میں ان کی سیاسی جماعت کا عمل دخل زیادہ ہوگا، مرتضی وہاب کی جانب سے بلدیہ عظمی کراچی کے وہ افسران امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں جو کافی عرصے سے کھڈے لائین لگا دئیے گئے جو قابلیت اور اہلیت میں بہت آگے ہیں لیکن اصولوں اور غیر قانونی کام نہ کرنے کی پاداش میں سزائیں بھگت رہے ہیں ان کی تعیناتیوں کے بجائے مرتضی وہاب نے پہلے ہی دن ایک حکمنامہ جاری کروایا جو انہیں کچھ گھنٹے بعد ہی واپس لینا پڑ گیا ہے مستقبل میں انہیں اپنی بہترین ٹیم تشکیل دینے میں رکاوٹیں واضح طور پر دکھائ دے رہی ہیں لئیق احمد کی افسران کی ٹیم میں ایسے افسران کی اکثریت ہے جن کا ماضی کسی نہ کسی طرح داغدار ہے، میٹروپولیٹن کمشنر بلدیہ عظمی کراچی خود نیب زدہ ہیں اہم پوسٹوں پر نیب زدہ اور کرپشن کے مختلف الزامات میں ملوث افسران تعینات ہیں، ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی کا یہ ہی طرز عمل رہا تو وہ سابق مئیر کراچی وسیم اختر سے زیادہ ناکام ثابت ہوسکتے ہیں انہیں بلدیہ عظمی کراچی کے حوالے سے خود فیصلے لینے ہونگے ان کی پارٹی ان کے معاملات میں ملوث رہی تو نتائج اچھے دکھائ نہیں دے رہے ہیں انہیں اس حوالے سے پانی سر سے اونچا ہونے سے پہلے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے بات کرنی چاہیئے کیونکہ معاملہ صرف بلدیہ عظمی کراچی کا نہیں ہے ضلع کی سطح پر وزیراعلی سندھ نے جن معاون ومشیران کو اپنے ساتھ شامل کیا ہے انہوں نے ضلعی بلدیات میں عمل دخل شروع کر دیا ہے ضلع شرقی کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہاں قانونی حیثیت نہ ہونے کے باوجود وزیراعلی سندھ کے معاون دفتر قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ دیگر ضلعوں میں وزیراعلی سندھ کے معاونین نے بھی ڈی ایم سیز کو اپنی آماجگاہ بنانا شروع کر رکھا ہے جس سے ضلعی بلدیات کا ماحول کشیدہ ہونا شروع ہوگیا ہے جس کا عملی ثبوت گزشتہ روز کا واقعہ ہے جس میں وزیراعلی سندھ کے ضلع وسطی کے معاون، بلدیہ وسطی کے ایک ڈائریکٹر سے الجھ پڑے تھے مجموعی صورتحال میں یہ دکھائ دے رہا ہے کہ بلدیہ عظمی کراچی سمیت کراچی کے بلدیاتی ادارے سیاسی آماجگاہ بننے جارہے ہیں جس میں فیصلے سیاسی ہونگے اور شہر کی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتری کی طرف جائے گی، ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی مرتضی وہاب نے گزشتہ روز یہ یقین دہانی کروائ تھی کہ وہ سب کو ساتھ لیکر چلیں گے جس کا واضح مطلب تھا کہ بلدیاتی اداروں کی افرادی مشینری ہو یا شہری لسانی یا کسی اور بنیاد پر متاثر نہیں کئے جائیں گے لیکن بلدیہ عظمی کراچی سمیت ضلعی بلدیات میں گزشتہ ایک روز میں جو ماحول دیکھنے میں آیا ہے وہ اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ کہیں خدانخواستہ بلدیاتی وشہری اداروں میں باہمی ٹکراؤ کی فضا پیدا تو نہیں کی جارہی ہے؟

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں