کراچی کو تختہ مشق بنادیا گیا

کراچی کو تختہ مشق بنادیا گیا

کراچی: رپورٹ: فرقان فاروقی)کراچی کو تختہ مشق بنادیا گیا، ساری جنگیں کراچی میں ہی لڑنی ہیں تو اس کے حقوق کا تحفظ بھی ہونا چاہیئے، صوبائی کابینہ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی روایت یہ ظاہر کر رہی ہے کہ سندھ حکومت اندرونی انتشار کا شکار ہے وزیراعلی سندھ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں ہونے والے فیصلے کے بعد کابینہ ہی مخالفت پر اتر آئ تو دیکھنا ہوگا کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو سپرئیر پاور ہیں یا کوئی اور جو انہیں دائیں بائیں گھمانے میں مصروف ہیں،صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد کراچی کی ضلعی بلدیات میں ڈپٹی کمشنرز کی جگہ تین ضلعوں میں بلدیاتی ایڈمنسٹریٹرز تعینات کئے گئے جس کے بعد مرحلہ وار اس کا دائرہ کار وسیع ہو کر پورے کراچی اور سندھ کے بلدیاتی اداروں تک پہنچنا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے ہی سیاسی اور سرکاری حلقے نے ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتیوں پر اعتراضات اٹھا دئیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محکمہ بلدیات سندھ کو ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتیوں کے حکم نامے منسوخ کرنے پڑے،جبکہ قانونی طور پر بلدیاتی ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتیاں ناگزیر ہوچکی ہیں، قانونی طور پر بلدیاتی اداروں کے ایڈمنسٹریٹرز کا چارج متعلقہ کمشنر، ڈپٹی یا اسسٹنٹ کمشنرز کو 90 دنوں کیلئے دیا جاتا ہے جس میں ان کی بنیادی ذمہ داری بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بنا کر بلدیاتی اداروں کی لگام منتخب بلدیاتی نمائندگان کے سپرد کرنا ہوتی ہے کسی بھی وجہ سے انتخابات تین ماہ میں منعقد نہیں کئے جاسکیں تو سندھ لوکل گورئمنٹ ایکٹ کی شق 21(3) کے تحت بلدیاتی افسران کو ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے گزشتہ روز بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتی کا حکمنامہ جاری کیا گیا تھا مگر سندھ حکومت کی کابینہ میں انتشار اور مختلف آراء ہونے کی وجہ سے ایک قانونی کام یقینی نہیں بن سکا، کراچی کے بلدیاتی اداروں میں تقریبا ایک سال سے ڈپٹی کمشنرز ضلعی بلدیات کے ایڈمنسٹریٹرز تعینات ہیں جس میں سے کچھ اضافی ذمہ داریوں سے شدید پریشان ہیں جبکہ کچھ ڈپٹی کمشنرز کسی طور بھی بلدیاتی اداروں کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور جو بلدیاتی اداروں کو چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں وہ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ بہتی گنگا میں کسی اور کو ہاتھ نہ ڈالنے دیا جائے اس لئے وہ اپنے اثرورسوخ کی بنیاد پر وزراء اور مشیران کے کان بھر رہے ہیں جس کی وجہ سے بدمزگی بڑھ رہی ہے، ذرائع کے مطابق وزیراعلی سندھ جو پہلے بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتیوں پر قائل نہیں تھے صوبائی کابینہ کے فیصلے کے بعد وہ ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتیوں کے مخالف نہیں ہیں لیکن پسند، ناپسند کی وجہ سے یہ معاملہ گھمبیر صورتحال اختیار کر گیا ہے اور صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ممکنہ طور پر صوبائی کابینہ میں تبدیلیاں رونما ہوجائیں بعض وزراء اپنی وزارت کے سفید وسیاہ کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کی وزارت میں وزیراعلی سندھ سمیت کوئی بھی ٹانگ نہ اڑائے، اس نئی صورتحال میں کراچی سمیت سندھ کے بلدیاتی ادارے تختہ مشق بنادئیے گئے ہیں جس میں رٹ قائم کرنے میں بازی لیجانے کی دوڑ میں شامل صوبائی کابینہ کے کچھ اراکین پیش پیش ہیں اور یہ معاملہ کچھ دنوں تک اسی طرح چلتے رہنے کی امید ہے،بلدیاتی سینئیر افسران کا کہنا ہے کہ کراچی کے بلدیاتی ادارے سونے کی کان سمجھے جاتے ہیں لہذا یہاں اثرورسوخ قائم کرنے کیلئے سرکاری اور حکومتی سطح پر لابیز قائم ہوتی رہی ہیں لیکن یہ اٹل ہے کہ بلدیاتی ادارے بلدیاتی سروسز کے ایڈمنسٹریٹرز ہی چلا سکتے ہیں ریونیو افسران کی اپنی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں لہذا انہیں انتظامی امور تک محدود رکھنا چاہیئے خاص طور پر کورونا کی موجودگی میں انتظامی افسران بہت زیادہ مصروف ہیں انہیں بلدیاتی ذمہ داری دیکر ان کے ساتھ ظلم کیا جارہا ہے افسران کا کہنا ہے کہ جس طرح کراچی کے بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتیوں پر ایکدوسرے پر بازی لیجانے کی کوشش کی جارہی ہے اسی طرح کراچی کے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بھی کام کئے جائیں تو کراچی ایک مرتبہ پھر سہولیات فراہم کرتا شہر دکھائی دے گا.

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet

اپنا تبصرہ بھیجیں