سندھ ہائی کورٹ اور چیف سیکرٹری کے احکامات کے باوجود بلدیہ عظمیٰ کے سنئیر ڈائریکٹر رضوان خان دربدر کی ٹھوکریں پر مجبور کرپٹ مافیا بے لگام،،
کراچی (رپورٹ: فرقان فاروقی)سندھ ہائی کورٹ اور
چیف سیکرٹری کے احکامات کے باوجود بلدیہ عظمیٰ کہ سنئیر ڈائریکٹر رضوان خان دربدر کی ٹھوکریں پر مجبور کرپٹ مافیا رضوان خان کو پی ڈی اورنگی صرف اس وجہ سے نہیں لگنے دے رہی کہ رضوان خان ان کی کرپشن کی دوکانیں منظر عام پر لیے آئے گے انقلاب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے
بلدیہ کراچی کے ڈائریکٹر اور کووااکراچی کے جنرل سیکریٹری محمد رضوان خان نے کہا ہے کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔ قلم کار اور سرکاری افسر ہوں ایڈمنسٹریٹر کراچی میرے باس ہیں۔ انکی عزت و حرمت ہر افسر پر لازم ہے کے ایم سی میں گروپنگ ہے ایک دوسرے کی عزت نہیں کی جا رہی۔ چار ج ازمپشن کے بعد صرف لیٹر جاری کیا اور ایڈمنسٹریٹر کراچی و میٹروپولیٹن کمشنر کو اطلاع دی۔جو ایک ڈائریکٹر کی اولین ذمہ داری ہے نیب یا اینٹی کرپشن میں کوئی کیس نہیں اللہ کے آگے سرخرو ہوں ایڈووکیٹ ہوں۔ قانون کی پاسداری کرنا اولین فریضہ ہے میرے پاس اللہ ہے۔ سازشیں میرا حوصلہ نہیں توڑ سکتیں محمد رضوان خان نے مذید کہا کہ کسی کے کہنے کرپٹ نہیں ہو جاؤں گا۔ سکون سے سوتا ہوں۔ ہر وقت احتساب کے لئے پیش ہوسکتا ہوں۔ ڈائریکٹر کے ایم سی محمد رضوان خان نے صحافی بھائیوں سے گفتگو میں کہا کہ جعلی خبروں سے ذہنی اذیت سے گزرا ہوں میرے مخالف افراد مجھے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ جو رات قبر میں ہے ٹل نہیں سکتی۔ سیاست کو اذیت سمجھتا ہوں اسلئے دور دور تک واسطہ نہیں رکھنا چاہتا۔ جبکہ میری جگہ جس افسر کو لگایا گیا وہ نیب سے سزا یافتہ اور لائنز ایریا پروجیکٹ میں ٹریپ کے بعد ضمانت پر ہے۔ آج نہیں کل اسے جانا ہے۔ لیکن وہ سیاسی افراد کے ذریعے سیاست کرکے بھاری رقوم خرچ کرکے مہم چلا رہا ہے۔ افسران کو احترام کرانا چاہئے۔ تعیناتی و تبادلے ہوتے رہتے ہیں۔ ون میں آرمی بن کر اورنگی کی پرائم زمینیں بچائیں۔ جنہیں نمٹانے کے لئے پرانی تاریخوں میں آرڈر کرکے جبری غنڈوں کے ذریعے میری موجودگی میں چارج یکم ستمبر کو لیا گیا۔ باہر سے افراد لائے گئے تھے۔ میری چارج کی اطلاع پر بدنام زمانہ افراد جمع کر لئے گئے تھے۔ میرا نہ ماضی داغدار تھا نہ اب ہے۔ لیگل نوٹس دیا ہوا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی کیس زیر سماعت ہے۔ جعلی خبروں سے ہمارے صحافی بھائی نے اپنی ساکھ خراب کرلی۔ اگر وہ درست ہیں تو عدالت میں ثابت کریں۔ اس کی سختی سے تردید کرتا ہوں کہ میں نے کوئی بھی غیر قانونی حرکت کی ہو۔ میری نہ تو کوئی ایف آئی آر ہے نہ کوئی کرمنل ریکارڈ۔میں اپیل کرتا ہوں سندھ ہائی کورٹ،وزیر اعلیٰ سندھ،وزیر بلدیات،کمشنر کراچی، سمیت دیگر تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے کہ اورنگی کی زمینوں کی جو بندر بانٹ چل رہی ہے اس کو روکا جائے اور مجھے انصاف بھی فراہم کیا جائے۔



