
خدمتِ خلق احترامِ انسانیت
ویسے تو اسلام میں خدمت خلق کے معنی مخلوق خدا کے ہیں جبکہ خدمت خلق معاشرتی اصلاح کیلئیے بہترین زریعہ ہے مگر افسوس پاکستان میں بسنے والے کرپٹ حکمران مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ملک و قوم کی خدمت سے بلکل ہی ناپید ہوچکے ہیں اور احترامِ انسانیت کو تو جیسے انھوں نے ذندہ ردگور کرکے من و مٹی تلے دفنادیا ہے درحقیقت یہ وہ بد قسمت لوگ ہیں جن پر آج اللّٰہ نے بھی اپنی رحمت کے دروازے بند کر دئیے ہیں شاید اب خالقِ کائنات بھی ان کو انسانیت کی خدمت کے بھی قابل نہیں سمجھتا ان کیلئیے اس سے ذیادہ بد قسمتی کیا ہوگی کہ ان کے ملک کی عوام صرف کروناوائرس ہی شکار نہیں بلکہ کرونا وائرس سے بھی بڑھی بیماری (یعنی) معاشی تنگدستی کا شکار ہوچکی ہے لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوکر قید ہونے کی وجہ سے مالی بحران کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اشیاء خوردونوش سے محروم عوام بھوک سے تڑپ رہی ہے بلک رہی ہے مگر ان ظالم بے حس حکمران کو آنکھیں ہونے کے باوجود بھی غریبوں کی تکلیف نظر نہیں آتی کانوں کی سماعت رکھنے کے بعد بھی گویا یہ بہرے ہوچکے ہیں ان کو بھوک کے کرب سے چیختی خاموش عوام کی آہ و بکا سنائی ہی نہیں دیتی امیر سلطنت، حاکم وقت ، ریاست کے بادشاہ، شہنشاہ حکمران بے شمار مال و زر اکھٹا کر کےرکھنے کے باوجود لگتا ہے یہ خالی ہاتھ ہیں جو بھوکے لوگوں کو کھانا نہیں کھلاسکتے ، جو مفلسوں کی مفلسی دور نہیں کرسکتے، جو تنگدستی میں بکھرتے ننگے وجود کو چادر سے نہیں ڈھانپ سکتے جو غربت میں پلتی حسرتوں کو خواہشوں کی تکمیل تک نہیں پہنچاسکتےیہ تو غریب سے بھی ذیادہ غریب ترین انسان ہیں بلکہ شاید یہ تو انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں کیونکہ جو انسانیت کی خدمت نہیں کرتا اُسے تو میرا مہربان ربّ بھی ناپسند فرماتا ہے سچ ہے جب میرا ربّ کسی سے ناراض ہوتا ہے تو وہ اس پر اپنی رحمت کے دروازے بند کردیتا ہے اور پھر وہ اُن کو کسی بھی نیکی کے قابل ہی نہیں سمجھتا اور وہ اُن کی رسّی کو دراز کرتا ہی چلاجاتا ہے ڈھیل دیتا ہی چلا جاتا ہے لیکن یہ بھی یاد رکھو اُس ربّ العزّت کی لاٹھی بے آواز ہے جب وہ ایسے لوگوں کی رسّی کھنچتا ہے تو وہ اُنھیں دنیا اور آخرت کسی بھی جگہ کے قابل نہیں ٹہرنے دیتا
اب بھی وقت ہے سدھر جاؤ جو مال و دولت آج تم نے حرام کما کما کر اس دنیا میں اکھٹا کیا ہے اُسے اس کے حق داروں تک پہنچادو ورنہ یاد رکھو۔۔۔۔ جب تم قبر میں جاؤ گے تو یہ سب مال وزر یہیں رہ جائے گا یہ دنیا فانی ہے اور جب تمہاری روح اس دنیائےفانی سے کوچ کرے گی تو کچھ بھی ساتھ نہ لے جاسکوگے جیسے خالی ہاتھ تم نے اس دنیا میں قدم رکھے تھے بلکل اُسی طرح تم خالی ہاتھ اس دنیا سے لوٹ کر جاوگے جیسے آج تم غریبوں کے ٹیکس پر اور غریب کے حق مال پر قبضہ کر کے بیٹھیے ہو کل تمہاری قبر میں یہی مال وپیسہ سانپ،بچھو بن کر بیٹھیں گے اورتم کو بار بار یہ اپنے ڈنگ مار کر اس بات کا احساس دلائیں گے کہ کیسے کیسے تم نے دنیا میں انسانیت کو تکلیف پہنچائی تھی کیسے تم نے مال و زر اکھٹا ہونے کے باوجود بھی خلقِ انسانیت کی حکم کی پیروی نہ کی انسانیت کی خدمت سے تم نے خود کو کیسے محروم رکھا تھا اگر تم چاہتے تو خدمتِ خلق کرسکتے تھےکی مگر تم مفلس کی مفلسی کا تماشہ بنتے دیکھتے رہے کیوں نہ تم نے اسکو دنیا کے آگے ذلیل و رسوا ہونے سے بچایا تم بھوک سے تڑپنے بلکتے انسانوں کو دیکھنے کے باوجود اپنی نظریں ان سے چراتے تم چاہتے تو ان کی بھوک کو مٹاسکتے تھے کیوں نہ تم نے انکی مصیبتوں میں ان کا ساتھ دیا اگر تم چاہتے تو ان کے مسیحا بن کر ان کی پریشانیوں کو دور کرسکتے تھےجبکہ تم ان کے حال سے بخوبی واقف تھے
تمہارے اطراف میں بسنے والے سفید پوش لوگوں نے تو بھوکے رہ کربھی اپنے ربّ کے حضور سجدہ شکر ادا کرکے راتیں بسر کی تھیں اور تم ان کے حال سے باخبر ہونے کے بعد بھی ان کی خیر خواہی کو نہ گئے اپنے گھروں کو اناج سے اور اپنی تجوریوں کو مال سے بھرے ہونے کے باوجود بھی تم نے ان کے پیٹ کی آگ کو کم کرکے اپنے رب کی رحمت خاص حاصل نہ کی مالی بحران سے گزرنے والی انسانیت کو اپنے خزانے سے مالی امداد پہنچا کر تم اللّٰہ کی رضا و خوشنودگی کوپا سکتے تھے مگر تم نے ایسا ہرگز نہ کیا ایسے خزانوں کا ایسے مال و دولت کو اکھٹا کرنے کا کیا فائدہ جو تم کو قبر میں بھی چین سے نہ سونے دے بروزِ قیامت تم اپنے ربّ کو کیا منہ دیکھاو گے میدانِ حشر میں جب تم سے خالقِ کائنات سوال کرے گا کہ تم نے دنیا میں کیا کیا اکٹھا کیا اور کس کس کا حق ادا کیا تو کیا جواب دوگے اور( آخرت میں تو تم سخت امتحان سے گزرنے والے ہو) اور اُس روز تمہیں اس کے ہر ایک سوال کا اپنے اعمال کے مطابق ہی جواب دینا پڑے گا جبکہ تم چاہتے تو اپنے بہتر اخلاق و کردار کے طفیل اپنے رب کے حضور سرخرو ہوسکتے تھے مگر افسوس تم اپنی جانوں پر ظلم کے خود ہی تو ذمہ دار ہو
بے شک میرا ربّ ہر شے پر قادر ہے جس کے قبضے میں ہماری جان و مال ہے اللّٰہ پاک ہم سب کو انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی ذات کے سوا کسی کا محتاج نہ کرے ہم سب پر اپنا خاص کرم و فضل فرمائے بے شک میرا ربّ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے



