کیماڑی گیس یا کرونا وائرس ؟
رپورٹ:فرقان فاروقی

کوئ تو وجہ ضرور ہے کہ کیماڑی حادثے کے15دن گزرنے کے بعد اچانک کرونا وائرس پاکستان میں داخل ہونے سےپورے پاکستان میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے لوگ اپنے پیاروں کی زندگیوں کو بچانے کے لئے حفاظتی اقدامات کر رہے ہیں لیکن کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ اچانک کرونا وائرس کہاں سے نمودار ہوگیا ہے یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل کیماڑی کے علاقے میں ایک خوف ناک

حادثہ رونما ہوچکاہے کیمیائ گیسوں نے جانیں بھی لیں اور اس کے اثرات بھی پورے شہر میں دکھائ دئیے مگر وقت کے ساتھ معاملات دب گئے پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی کی بندرگاہ کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد تو درجن سے زیادہ ہو گی لیکن یہ گیس ہے کون سی اور کہاں سے خارج ہو رہی تھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ادارے 46 دن سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود اس کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکےکرونا وائرس یا کیماڑی گیس دونوں میں ایک چیز مشترکہ ہے,دونوں سے مریضوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے,جناح ہسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ ان کے پاس 35 مریض لائے گئے تھے جن میں سے اس وقت صرف ایک کی حالت تشویشناک تھی جو ونٹی لیٹر پر تھا۔
ان کے مطابق تمام متاثرہ افراد سانس لینے میں دشواری کی شکایت کر رہے تھے۔ ان کے ایکسرے وغیرہ بھی کرائے گئے ہیں لیکن کچھ نظر نہیں آیا جبکہ خون کے نمونے لے کر انتظامیہ کو فراہم کردیے گئے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے تجربے کے مطابق ’یہ کوئی پاکٹ ہے جہاں گیس جمع ہو رہی ہے.اس سے قبل سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ گیس سے 250 کے قریب افراد متاثر ہوئے جن میں سے اکثریت کو طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا تھا واقعے کی تحقیقات جاری ہیں آج کے اس جدید دور میں گیس خارج ہونے کی وجوہات کا پتہ لگایا جانا اتنی مشکل بات دکھائ نہیں دیتی ہے اس سلسلے میں ایس او پیز اپنی جگہ موجود ہیں ان کا کہنا تھا حتمی رپورٹ آتے ہی میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا جائے گا اور اعتماد میں لیا جائے گا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اتنا بڑا حادثہ رونما ہو وہاں کی عوام کی قیمتی جانیں ضائع ہوں اور وزیر بلدیات ناصر حسین کا کہنا ہوکہ نمونے کراچی یونیورسٹی کی لیبارٹری اور پی سی ایس آئی آر بھیج دیے گئے ہیں اور حتمی نتیجے اور حتمی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد ذمہ داران کا تعین کیا جائے گا اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔وزیر بلدیات ناصر حسین صاحب آج تقریبا 46 دن گزرنے کے باوجود نہ ہی گیس کے اخراج کا پتہ چل سکا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھےجو ملزمان ہیں ان کا معلوم ہوسکا اس سلسلے میں کراچی کے ایک تھانے میں مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے تاہم اس میں بھی یہ واضح نہیں کہ زہریلی گیس کا اخراج کہاں سے ہو رہا ہے جبکہ ہلاک ہونے والوں کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کروایا گیا۔پوسٹ مارٹم نہ کروانے کی آخر کیا وجہ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟.میں جانتا ھوں یہ وقت ان باتوں کا نہیں لیکن حقیقت سے آنکھ چرانا بھی بہت بڑا جرم ھے اب کورونا وائرس میں الجھے لوگ یہ بات بھول کر اس نئ مصیبت سے چھٹکارا پانے میں مشغول ہیں قرنطینہ بنائے جا رہے ہیں جس سے یہ تاثر سر ابھار رہا ہے کہ کہیں کسی نہ کسی چیز کے تانے بانے جڑے ہیں جس کو سامنے لانے سے گریز کیا جا رہا ہے حکومت سندھ فوری طور پر یہ کوشش کرے کہ سندھ بالخصوص کراچی سے اس وباء کا خاتمہ ہو 14 دن سے زائد کے لاک ڈاؤن کے بعد کورونا کے حوالے سے معاملات اب تک کلئیر ہو جانے چاہیئے تھے مگر روزانہ کی کورونا کے مریضوں کی بڑھتی تعداد پریشانی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ بڑھتی تعداد کا مطلب یہ ہے کہ اب بھی کئ کیرئیر کیسز موجود ہیں جن تک پہنچنے کیلئے حکومتی انتظامات ناکافی ہیں.



