امریکا نے چائنا ٹیلی کام کمپنی کا لائسنس منسوخ کردیا

امریکا نے چائنا ٹیلی کام کمپنی کا لائسنس منسوخ کردیا

امریکا نے چین کی بڑی ٹیلی کام کمپنی کا لائسنس قومی سلامتی کے اندیشے کے پیش نظر منسوخ کردیا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے کہا کہ چائنا ٹیلی کام 60 روز کے اندر امریکا کے اندر اپنی خدمات فراہم کرنا بند کردے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ کمپنی پر چینی حکومت کا کنٹرول اس کو رسائی، اسٹور، رکاؤٹ ڈالنا اور امریکی مواصلات کے روٹ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت بخشتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ امریکا کے خلاف جاسوسی اور دیگر نقصان پہنچانے والی سرگرمیاں پیش آسکتی ہیں۔

چائنا ٹیلی کام گزشتہ 20 برس سے امریکا میں خدمات فراہم کر رہی ہے اور اپنے بیان میں امریکی اقدام کو مایوس کن قرار دے دیا۔

بیان میں مزید کہا کہ ہم اپنے صارفین کو خدمات فراہم کرنے کے لیے تمام دستیاب آپشنز استعمال کریں گے۔

خیال رہے کہ چائنا ٹیلی کام چین میں کام کرنے والی تین بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے اور دنیا کے 110 ممالک میں کروڑوں صارفین کو خدمات پہنچاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے یہ فیصلہ سیکریٹری خزانہ جینیٹ یلین کے چینی نائب وزیراعظم لیو ہی سے دنیا کی معیشت پر گفتگو کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا ہے۔

حالانکہ ان کی ملاقات کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات میں بہتری کے طور پر دیکھا جا رہا تھا جبکہ اس سے قبل تائیوان اور تجارت کے معاملے پر تلخ بیانات کا تبادلہ ہوا تھا۔

امریکا کے ادارے فیڈرل کمیونیکشین کمیشن (ایف سی سی) نے اپریل 2020 میں تنبیہ کی تھی کہ چائنا ٹیلی کام کو امریکا میں بند کردیا جائے اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ کمپنی پر چینی حکومت کا غلبہ ہے اور استعمال کیا جاسکتا ہے۔

بیان میں کہا کہ کمپنی کو بظاہر آزادانہ کام کرنے کے بجائے چینی حکومت کی ہدایات پر عمل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

امریکا نے قومی سلامتی کے نام پر پابندیوں کے سلسلے میں چائنا ٹیلی کام کو تازہ نشانہ بنایا ہے۔

گزشتہ برس ایف سی سی نے ہواوے اور زیڈ ٹی ای کو کمیونیکیشن نیٹ ورک کے لیے خطرہ قرار دیا تھا اور امریکی کمپنیوں کو ان سے آلات خریدنے کے لیے مشکلات کھڑی کر دی تھیں۔

ایف سی سی نے چینی موبائل کمپنی کا لائسنس 2019 میں منسوخ کیا تھا اور اس سلسلے میں اس وقت چینی سرکاری دو بڑی کمپنیاں چائنا یونیکوم امریکاز اور پیسفیک نیٹ ورکس زیر غور ہیں۔

رپورٹ کے مطابق تمام کیسز میں امریکی حکام نے خطرات کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ چینی حکومت ان کمپنیوں کو امریکا میں جاسوسی اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔

یاد رہے کہ چین اور امریکا کے درمیان 2018 میں تجارتی جنگ کا آغاز ہوا تھا جب امریکی صدر نے چینی مصنوعات پر ٹیرف میں اضافہ کردیا تھا اور چین نے بھی بھرپور جواب دیا تھا۔

گزشتہ برس مئی میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اسمارٹ فون کمپنی ہواوے پر امریکی ٹیکنالوجی اور سافٹ وئیرز کی سپلائی کے حوالے سے پابندیوں کو مزید سخت کیا گیا تھا۔

امریکی حکومت کی جانب سے جاری حکم نامے کے تحت ہواوے اور اس کے سپلائرز کو امریکی ٹیکنالوجی اور سافٹ وئیر کے استعمال سے روکنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet