ترک صدر کا امریکا اور 9 دیگر مغربی ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کرنے کا حکم

ترک صدر رجب طیب اردوان

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے وزیر خارجہ سے کہا کہ وہ جرمنی اور امریکا سمیت 10 ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کردیں۔

ان سفیروں نے پیر کے روز ایک انتہائی غیر معمولی مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیرس میں پیدا ہونے والے 64 سالہ سماجی کارکن عثمان کوالا کی مسلسل حراست نے ترکی کے لیے صورتحال مزید خراب کردی ہے جس کے بعد ترک صدر نے یہ حکم صادر کیا۔

ترکی کی مغربی ممالک کے ساتھ کشیدگی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے اور رواں ہفتہ ان کے انتہائی مایوس کن ثابت ہوا ہے جہاں اس سے قبل انہیں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا اور ان کی کرنسی ‘لیرا’ کی قدر کم ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

اردوان نے کہا کہ میں نے اپنے وزیر خارجہ کو حکم دیا ہے کہ ان 10 سفیروں کو جتنی جلدی ممکن ہو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک بدر کیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ یہ جتنا جلد ممکن ہو ترکی چھوڑ دیں۔

مغربی ممالک کے سفیروں نے عثمان کوالا کے معاملے کے فوری حل کا مطالبہ کیا تھا۔

64 سالہ کوالا 2017 سے عدالت کی جانب سے کسی سزا کے بغیر مسلسل جیل میں ہیں اور انہیں 2013 میں حکومت مخالف مظاہروں اور 2016 میں ناکام فوجی بغاوت سے منسلک ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔

جمعرات کو مقامی میڈیا میں سفیروں کے بارے میں اردوان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے ملک میں ان کی میزبانی نہیں کر سکتے۔

مغربی ممالک کے ساتھ ترکی کی کشیدگی کی نئی لہر کے خدشات کے دوران ہی ترک لیرا کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے۔

سال کے آغاز کے بعد سے ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر 20فیصد تک گر چکی ہے اور مہنگائی کی شرح میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوا ہے جو حکومتی ہدف کے مقابلے میں 5گنا زیادہ ہے۔

یوریشیا گروپ کا کہنا ہے کہ اردوان ترکی کی معیشت کو بحران کی جانب لے کر جا رہے ہیں۔

ان سفارتی تعلقات کو مزید ضرب اس وقت لگی جب ایف اے ٹی ایف نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کا صحیح طریقے سے مقابلہ کرنے میں ناکامی پر ترکی کو بلیک لسٹ میں شامل کر لیا۔

ترکی اب ایفا اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ ہے جس میں شام ، جنوبی سوڈان اور یمن شامل ہیں۔

اردوان نے ایف اے ٹی ایف کی اس پابندی سے بچنے کے لیے سخت جدوجہد کرتے ہوئے نئی قانون سازی متعارف کرائی تھی جس کا مقصد ظاہری طور پر دہشت گرد نیٹ ورکس سے لڑنا تھا، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے زیادہ تر ان ترک این جی اوز کو نشانہ بنایا گیا جو کرد نذاد افراد کے انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرتی ہیں۔

کونسل آف یورپ ترکی کو حتمی انتباہ جاری کرچکی ہے کہ وہ 2019 کی یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے حکم کی تعمیل کرے تاکہ عثمان کوالا کو زیر التوا مقدمے میں رہائی مل سکے۔

اگر ترکی 30 نومبر سے 2 دسمبر کو ہونے والے اپنی اگلی میٹنگ میں ایسا کرنے میں ناکام رہا تو اسٹراسبرگ میں قائم کونسل ترکی کے خلاف اپنی پہلی انضباطی کارروائی شروع کرنے کے لیے ووٹ دے سکتی ہے۔

اس کارروائی کے نتیجے میں ترکی کے ووٹنگ کے حقوق اور یہاں تک کہ اس کی رکنیت بھی معطل ہو سکتی ہے۔

Whats-App-Image-2020-08-12-at-19-14-00-1-1
upload pictures to the internet